مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ شرکت اور وکالت کا بیان ۔ حدیث 159

وکالت کے احکام

راوی:

وکالت کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ وکیل اور مؤ کل مجنوں نابالغ غلام اور محجور نہ ہو
-2 کسی اسی چیز میں وکیل بنانا جائز نہیں جو کسی کی مملوک نہ ہو جیسے جنگ کی گھاس یا لکڑیا جمع کرنا دریا سے پانی لانا ، غوطہ لگا کر موتی نکالنا یا صدقہ لینے کے لئے وکیل بنانا۔
-3 جائز ہے کہ وکیل چاہے تو مفت خدمات انجام دے چاہے اپنی اجرت وصول کر لے اور چاہے نفع میں شریک ہو۔
-4 ہر ایسے تصرف میں جس کی نسبت اپنی اور مؤ کل دونوں کی طرف کر سکتا ہے وکیل مثل اصل کے مدعی اور مدعا علیہ بن سکتا ہے جیسے خرید وفروخت اور ہر ایسے امر میں جس کی نسبت اپنی طرف نہیں کر سکتا وکیل کو حقوق عقد سے کوئی واسطہ نہیں جیسے نکاح، طلاق
-5 وکیل کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی ذات کے لئے مالکانہ تصرف کرے کیونکہ وہ صرف امین ہے
-6 مؤ کل اپنے وکیل کو تصرف سے پہلے معزول کر سکتا ہے تصرف کے بعد اسے و کیل کے انجام دئیے ہوئے کام کو قبول وتسلیم کر لینے کے علاوہ اور کوئی حق حاصل نہیں
-7 وکیل کو حق ہے کہ وہ مؤ کل کے لئے جو مال لایا ہے اس کے دام وصول کئے بغیر اس کے حوالے نہ کرے مگر دے کر واپس نہیں کر سکتا ۔
-8 جب کہ وکیل دام وصول کرنے کے لئے مال نہ روکے امین ہے اور روکنے کے بعد ضامن ہو جائے گا ۔
-9 وکیل کو جائز نہیں کہ جس چیز کے لئے وکیل بنایا گیا ہے اس کا معاملہ اپنی ذات کے لئے کرے۔

مسئلہ :
-1 زید نے اپنے نوکر سے کسی دکان سے کوئی چیز منگوائی اور نوکر وہ چیز دکاندار سے ادھارلے آیا تو وہ دکاندار زید سے قیمت کا تقاضہ نہیں کر سکتا بلکہ اسی نوکر سے تقاضہ کرے اور وہ نوکر زید سے تقاضا کرے ۔ بشرطیکہ زید نے قیمت اسے نہ دی ہو اسی طرح اگر زید نے اپنی کوئی چیز اپنے نوکر سے بکوائی تو زید کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ خریدار سے تقاضہ کرے یا اس سے قیمت وصول کرے کیونکہ خریدار نے جس شخص سے وہ چیز حاصل کی ہے اسی کو قیمت ادا کرے گا ہاں اگر خریدار زید کو ازخود قیمت دیدے تو یہ جائز ہے مطلب یہ کہ اگر خریدار زید کو قمیت نہ دے تو زید زبردستی نہیں کر سکتا۔
-2 زید نے اپنے نوکر سے ایک من گیہوں منگوایا تھا مگر وہ ڈیڑھ من اٹھا لایا تو زید کو پورا ڈیڑھ من لینا واجب نہیں ہے بلکہ اگر وہ نہ لے تو آدھ من نوکر کو لینا پڑے گا۔
-3 زید نے کسی سے کہا کہ فلاں بکری جو فلاں کے پاس ہے تم جا کر اس کو پندرہ روپے میں لے آؤ تو اب وہ شخص وہی بکری خود اپنے لئے نہیں خرید سکتا ۔ مطلب یہ ہے کہ جو چیز خاص کر کے وکیل کو بتا دی جائے اس وقت وکیل کو خود اپنے لئے اس کو خریدنا جائز نہیں ہے البتہ مؤ کل نے جو دام بتائے ہیں اس سے زیادہ میں اگر وکیل اپنے لئے خریدے تو جائز ہے اور اگر مؤ کل نے کچھ دام نہ بتائے ہوں صرف خریدنے کے لئے کہا ہو تو پھر کسی صورت میں بھی وہ چیز وکیل اپنے لئے نہیں خرید سکتا۔
-4 زید کے وکیل نے زید کے لئے ایک بکری خریدی پھر ابھی وکیل زید کو دینے نہ پایا تھا کہ بکری مرگئی یا چوری ہوگئی تو اس بکری کے دام زید ہی کو دینا پڑیں گے۔ اگر زید وکیل سے یہ کہے کہ تم نے وہ بکری میرے لئے نہیں بلکہ اپنے لئے خریدی تھی تو زید کی اس بات کا اعتبار نہیں ہوگا بشرطیکہ زید نے اس بکری کے دام وکیل کو پہلے ہی دیدئیے ہوں ہاں اگر اس نے دام پہلے نہیں دئیے تھے تو اس صورت میں اگر زید قسم کھا کر وکیل سے یہ کہے کہ تم نے وہ بکری اپنے لئے خریدی تھی تب اس کی بات کا اعتبار ہوگا اور اس بکری کا نقصان وکیل کو برداشت کرنا ہوگا اور اگر زید قسم نہ کھا سکے تو پھر وکیل ہی کی بات کا اعتبار کرنا ہوگا۔
-5 زید کا نوکر اگر کوئی چیز گراں خرید لائے تو اگر تھوڑا ہی فرق ہو تو وہ چیز زید کو لینی پڑے گی اور اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی اور اگر بہت زیادہ گراں خرید لاتا ہے کہ وہ چیز اتنی قیمت میں کوئی نہیں خرید سکتا تو اس کا لینا واجب نہیں ہے اگر زید وہ چیز نہ لے تو خود نوکر اس چیز کا ذمہ دار ہوگا۔
-6 زید نے اپنی کوئی چیز بکر کو دی کہ وہ اسے فروخت کر دے تو بکر کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو خود لے لیوے اور اس کے دام زید کو دیدے۔ اسی طرح اگر زید نے بکر سے کہا کہ فلاں کی چیز مجھے خرید لاؤ تو بکر کو یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اپنی چیز زید کو لا کر دیدے اور اس سے اس کی قیمت وصول کر لے اگر بکر اپنی چیز دینا یا خود لینا چاہے تو زید سے صاف صاف کہدے کہ یہ چیز میں لیتا ہوں مجھ کو دیدو یا یوں کہدے کہ یہ میری چیز لے لو اور اتنی قیمت مجھے دیدو بغیربتلائے ہوئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
-7 زید نے اپنے نوکر سے بکری کا گوشت منگوایا اور وہ بھینس کا لے آیا تو زید کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو لے چاہے نہ لے اسی طرح زید نے نوکر سے آلو منگوائے اور وہ بھنڈی لے آیا تو اس کا لینا ضروری نہیں ہے اگر زید لینے سے انکار کر دے تو نوکر کو خود لینا پڑے گا۔
-8 زید نے دو آدمیوں کو بھیجا کہ بازار جا کر فلاں چیز لے آؤ تو اس چیز کی خریداری کے وقت ان دونوں آدمیوں کو موجود رہنا ضروری ہے صرف ایک آدمی کو خریدنا جائز نہیں ہے ۔ اگر ایک ہی آدمی خریداری کرے تو بیع موقوف رہے گی۔ اگر زید صرف ایک آدمی کی خریداری کو منظور کر لے گا تو صحیح ہو جائے گا ۔
-9 زید نے کسی شخص سے کہا کہ بازار سے فلاں چیز خرید لاؤ مگر اس شخص نے وہ چیز خود نہیں خریدی بلکہ کسی دوسرے سے خریدنے کے لئے کہدیا تو اب اس چیز کو لینا زید پر واجب نہیں رہے گا چاہے وہ لے لے چاہے لینے سے انکار کردے دونوں اختیار ہیں البتہ اگر وہ شخص خود خریدے تو پھر زید کو لینا پڑے گا۔

یہ حدیث شیئر کریں