مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غصب اور عاریت کا بیان ۔ حدیث 172

کسی کے باغ وغیرہ کو جانور کے نقصان پہچانے کا مسئلہ

راوی:

وعن حرام بن سعد بن محيصة : أن ناقة للبراء بن عازب دخلت حائطا فأفسدت فقضى رسول الله صلى الله عليه و سلم أن أهل الحوائط حفظها بالنهار وأن ما أفسدت المواشي بالليل ضامن على أهلها . رواه مالك وأبو داود وابن ماجه

اور حضرت حرام بن سعد بن محیصہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت بار بن عازب کی اونٹنی ایک باغ میں گھس گئی اور باغ کو خراب کر ڈالا جب یہ معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ دن میں باغات کی حفاظت باغ والوں کے ذمہ ہے اور جو جانور رات میں باغات کو خراب کریں تو اس کا ضمان یعنی تاوان جانوروں کے مالکوں پر ہے ( مالک ابوداؤ ابن ماجہ)

تشریح :
ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی جانور دن میں کسی کے باغ کو خراب کر دے تو اس کا تاوان جانور کے مالک پر نہیں آتا کیونکہ دن میں باغ کی حفاظت کرنا باغ والے کی ذمہ داری ہے لہذا یہ اس کی اپنی کوتاہی ہے کہ اس نے اپنے باغ کی نگہبانی کیوں نہیں کی اور کسی جانور کو باغ میں کیوں گھسنے دیا۔ اور اگر کوئی جانور رات میں کسی کے باغ کو نقصان پہنچائے تو اس کا تاوان اس جانور کے مالک پر واجب ہوگا کیونکہ یہ جانور کے مالک کا قصور ہے کہ جب رات میں اپنے جانوروں کی نگہبانی اس کے ذمہ ہے تو اس نے اپنے جانور کو آزاد چھوڑ کر ایک دوسرے شخص کے نقصان کا باعث کیوں بنا؟
یہ ساری تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ جانور کا مالک جانور کے ساتھ نہ ہو اگر مالک جانور کے ساتھ ہوگا خواہ وہ جانور پر سوار ہو یا اسے کھینچ کر لائے جا رہا ہو تو پھر دن میں بھی جانور کے پہنچائے ہوئے نقصان کا تاوان جانور کے مالک پر ہوگا چاہے وہ جانور اپنے ہاتھ پاؤں سے نقصان پہنچائے چاہے منہ سے۔
یہ تو حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا مسلک ہے اس بارے میں حنفی مسلک یہ ہے کہ اگر جانور کے ساتھ نہ ہو تو پھر اس پر نقصان کا تاوان واجب نہیں ہوتا خواہ وہ جانور دن میں نقصان پہنچائے خواہ رات میں ۔
اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پاؤں کا روندا ہوا معاف ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ کا جلایا ہوا معاف ہے ( ابوداؤد)

تشریح :
یعنی اگر کوئی جانور کسی کی چیز کو پاؤں سے روند کچل کر تلف وضائع کر دے تو اس کی وجہ سے اس جانور کے مالک پر تاوان واجبہ نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ مالک جانور کے ساتھ نہ ہو اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی برے مقصد مثلا ایذاء رسانی وغیرہ کے بغیر محض اپنی ضرورت یا کسی اور وجہ سے آگ جلائی اور اس کی کوئی چنگاری ہوا میں اڑ کر کسی دوسرے کے سامان پر جا پڑی جس سے وہ سامان جل گیا تو اس صورت میں آگ جلانے والے پر نقصان کا تاوان نہیں واجب ہوگا بشرطیکہ اس نے جس وقت آگ جلائی ہو اس وقت ہوا ٹہری ہوئی ہو اور آگ جلنے کے بعد چلی ہو اور اگر اس نے ایسے وقت آگ جلائی جب کہ ہوا چل رہی تھی اور اس کی وجہ سے آگ سے نقصان پہنچ جانے کا احتمال تھا تو پھر اس پر تاوان واجب ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں