مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ خرید و فروخت کے مسائل و احکام ۔ حدیث 20

پچھنے لگانے والے کی کمائی کا حکم

راوی:

وعن محيصة أنه استأذن رسول الله صلى الله عليه و سلم في أجرة الحجام فنهاه فلم يزل يستأذنه حتى قال : " اعلفه ناضحك وأطعمه رقيقك " . رواه مالك والترمذي وأبو داود وابن ماجه

حضرت محیصہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنے لگانے والے کی کمائی کھانے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کر دیا چنانچہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار اجازت مانگتے رہے تو آپ نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کمائی کا مال اپنے اونٹ کو کھلا دو یا اپنے بردہ (غلام لونڈی ) کو کھلاؤ۔

تشریح :
اکثر صحابہ کی ملکیت میں غلاموں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی جن میں سے کچھ غلاموں کو وہ پچھنے لگانے کے کام پر مامور کر دیتے تھے اور پھر ان کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کو اپنے استعمال میں لا تے تھے چنانچہ ایک صحابی حضرت محیصہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ جاننا چاہا کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی آیا جائز ہے یا نہیں اور یہ اجازت مانگی کہ میرا غلام پچھنے لگانے کی جو اجرت حاصل کرتا ہے چونکہ اس میں سے کچھ حصہ میری ملکیت میں آتا ہے اس لئے میں اپنے اس حصہ کو اپنے استعمال میں لاؤں یا نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی چونکہ صحابہ اپنے بعض غلاموں سے پچھنے لگانے کی حاصل ہونے والی اجرت میں سے اپنا حصہ لے کر اسے اپنی ضروریات میں صرف کرتے تھے اور اسے وہ پسند بھی کرتے تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت نہ دینے سے محیصہ اس بارے میں دشواری محسوس ہوئی اور اس امید کی بناء پر کہ آپ اجازت دے دیں وہ بار بار اجازت طلب کرتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اتنی اجازت دیدی کہ وہ اس اجرت کو اپنے اونٹوں کے گھاس اور چارے میں اور اپنے غلاموں لونڈیوں پر صرف کر لیں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو اشارہ فرمایا کہ پچھنے لگانے سے جو اجرت حاصل ہوتی ہے وہ اگرچہ جائز مال ہے مگر چونکہ وہ خون نکالنے کی کمائی ہے اس لئے اس کو شرفاء کے لئے استعمال کرنا مکروہ اور ان کی شان کے خلاف ہے اور لونڈی غلام چونکہ آزاد لوگوں کے برخلاف ایسا شرف نہیں رکھتے جو اس پیشہ کی دنائت کے منافی ہو اس لئے پچھنے لگانے کی کمائی کھانا اس کی شان سے فروتر نہیں ہے۔ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ذریعہ گویا اولو العزمی اور عالی ہمتی کی ترغیب بھی دی ہے کہ شرفاء کو باوقار پیشہ اور اپنے دست وبازو کی محنت کی ہی کمائی کھانی چاہئے۔
بہرکیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت محیصہ کو جو اجازت نہیں دی وہ محض نہی تنزیہی کے طور پر ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پچھنے لگانے کی اجرت مال حرام ہے کیونکہ اگر یہ مال حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اسے اپنے جانور اور اپنے غلام لونڈی پر خرچ کی اجازت نہیں دیتے اس لئے کہ آقا کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے جانوروں یا اپنے غلام لونڈی کو حرام مال کھلائے لہذا حدیث کا حاصل یہ ہے کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی کھانا مکروہ تنزیہی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں