مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غیرآباد زمین کو آباد کرنے اور پانی کے حق کا بیان ۔ حدیث 222

اپنی جائیداد کے ذریعے کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ

راوی:

وعن سمرة بن جندب : أنه كانت له عضد من نخل في حائط رجل من الأنصار ومع الرجل أهله فكان سمرة يدخل عليه فيتأذى به فأتى النبي صلى الله عليه و سلم فذكرذلك له فطلب إليه النبي صلى الله عليه و سلم ليبيعه فأبى فطلب أن يناقله فأبى قال : " فهبه له ولك كذا " أمرا رغبه فيه فأبى فقال : " أنت مضار " فقال للأنصاري : " اذهب فاقطع نخله " . رواه أبو داود
وذكر حديث جابر : " من أحيى أرضا " في " باب الغصب " برواية سعيد بن زيد . وسنذكر حديث أبي صرمة : " من ضار أضر الله به " في " باب ما ينهى من التهاجر "

اور حضرت سمرہ بن جندب کے بارے میں منقول ہے کہ ان کے کھجوروں کے چند درخت ایک انصاری (جن کا نام بعض علماء نے ملک بن قیس لکھا ہے) کے باغ میں تھے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ اسی باغ میں رہتے تھے چنانچہ جب سمرہ اپنے ان درختوں کی وجہ سے باغ میں آتے تو ان انصاری کو اس سے تکلیف ہوتی ایک دن وہ انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ کو اپنی مجلس میں طلب کیا تا کہ ان سے یہ فرمائیں کہ وہ اپنے کھجور کے ان درختوں کو انصاری کے ہاتھ فروخت کر دیں تا کہ ان درختوں کی وجہ سے انصاری کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ اس سے نجات پا جائیں لیکن سمرہ نے اپنے درختوں کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ سمرہ اپنے ان درختوں کو انصاری کے ان درختوں سے بدل لیں جو کسی دوسری جگہ واقع تھے مگر سمرہ اس پر بھی تیار نہیں ہوئے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ سے یہ فرمایا کہ اچھا اپنے درخت انصاری کو بطور ہدیہ دیدو تمہیں اس کا اجر بہشت کی نعمتوں کی صورت میں مل جائے گا ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور سفارش اور رغبت دلانے کے لئے یہ حکم دیا ( یا امرارغبہ کا ترجمہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ سے ترغیب کی ایک بات فرمائی یعنی اپنے درخت کو بطور ہدیہ دے دینے کا ثواب ذکر فرمایا ) لیکن سمرہ نے اس سے بھی انکار کر دیا آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمرہ سے فرمایا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ تم واقعی اس انصاری کو ضرور تکلیف پہنچانا چاہتے ہو؟ اور جو شخص کسی کو ضرور تکلیف پہنچائے اس کا دفعیہ چونکہ ضروری ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا کہ تم جاؤ اور سمرہ کے درختوں کو کاٹ پھینکو (ابوداؤد)

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سمرہ کو اپنے درختوں کو انصاری کے ہاتھ فروخت کر دینے یا تبادلہ کر لینے اور ہبہ کرنے کا جو حکم دیا اور انہوں نے وہ حکم نہیں مانا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حکم بطریق وجوب نہیں دیا تھا کہ اس کا ماننا ضروری ہوتا بلکہ بطور سفارش تھا یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری صورت حضرت سمرہ کے سامنے رکھی اسی میں ثواب کی ترغیب دلائی تھی۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا تعلق وجوب سے ہوتا ہے کہ جس کو ماننا حضرت سمرہ کے لئے ضروری ہوتا تو یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت سمرہ اتنی صفائی کے ساتھ انکار کر دیتے بلکہ وہ ایک فرمانبردار ومطیع صحابی ہونے کے ناطے فورًا مان لیتے۔ اب رہی یہ بات کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بطریق وجوب نہیں دیا تھا بلکہ اس کا تعلق سفارش سے تھا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کو حضرت سمرہ کے درخت کاٹ ڈالنے کا حکم کیوں دیا؟ اس کا جاب بالکل صاف ہے کہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش کے ذریعے اخلاقی طور پر حضرت سمرہ کو اس بات پر تیار کرنا چاہا کہ وہ اپنے درختوں ٍے دست کش ہو جائیں مگر جب سمرہ نے دست کشی سے انکار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات ظاہر ہوئی کہ سمرہ نے انصاری کے باغ میں عاریۃ درخت لگائے تھے مگر اب نہ وہ ان درختوں کو بیچتے ہیں نہ تبادلہ کرتے ہیں اور نہ ہبہ کرتے ہیں تو گویا وہ واقعۃ انصاری کو ضرور تکلیف پہنچانا چاہتے ہیں اس صورت میں یہ ضروری تھا کہ انصاری کو اس ضرر وتکلیف سے نجات دلائی جائے اس لئے اس کی آخری صورت یہی رہ گئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان درختوں کو کاٹ ڈالنے کا حکم دیدیں۔
اور حضرت جابر کی حدیث (من احی ارضا) الخ بروایت حضرت سعید بن زید باب الغصب میں نقل کی جا چکی ہے اور حضرت ابی صرمہ کی حدیث من ضار اضر اللہ بہ الخ باب ما ینہی من التہاجر میں نقل کی جائے گی (یہ دونوں حدیثیں صاحب مصابیح نے یہاں نقل کر رکھی تھی۔

یہ حدیث شیئر کریں