مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عطایا کا بیان ۔ حدیث 247

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نئے پھل کا ہدیہ کس طرح قبول کرتے تھے

راوی:

وعن أبي هريرة قال : رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أتي بباكورة الفاكهة وضعها على عينيه وعلى شفتيه وقال : " اللهم كما أريتنا أوله فأرنا آخره " ثم يعطيها من يكون عنده من الصبيان . رواه البيهقي في الدعوات الكبير

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی نیا پھل پیش کیا جاتا تو پہلے اس پھل کو قبول فرما کر اپنی آنکھوں اور ہونٹوں پر رکھتے پھر یہ فرماتے اے اللہ! جس طرح تو نے ہمیں اس پھل کی ابتداء دکھائی اسی طرح اس کی انتہاء بھی دکھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پھل کسی اس بچے کو دیدیتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا ( بیہقی)

تشریح :
تازہ پھل کو اپنی آنکھوں پر رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ایک تازہ نعمت کی تعظیم ہوتا تھا انتہاء کا تعلق اگر دنیا سے ہے تو پھر یہ دعا درازی عمر کے لئے ہو گی اور اگر اس کا تعلق عقبی سے ہے تو اس سے اس طرف اشارہ ہوگا کہ آخرت کے آگے دنیا کی کیا حقیقت ہے بڑی نعمت تو آخرت کے نعمت ہے اس طرح اس دعا کا مطلب یہ ہوگا کہ اے اللہ جس طرح تو نے ہمیں اس دنیا کی نعمت عطا کی ہے اسی طرح آخرت کی نعمت بھی کہ حقیقی نعمت وہی ہے عطا فرما۔

یہ حدیث شیئر کریں