مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عطایا کا بیان ۔ حدیث 246

اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ ترجیحی سلوک مناسب نہیں ہے

راوی:

عن جابر قال : قالت امرأة بشير : أنحل ابني غلامك وأشهد لي رسول الله صلى الله عليه و سلم فأتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إن ابنة فلان سألتني إن أنحل ابنها غلامي وقالت : أشهد لي رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : " أله إخوة ؟ " قال : نعم قال : " أفكلهم أعطيتهم مثل ما أعطيته ؟ " قال : لا قال : " فليس يصلح هذا وإني لا أشهد إلا على حق " . رواه مسلم

حضرت جابر کہتے ہیں کہ (ایک صحابی) حضرت بشیر کی بیوی نے ان سے کہا کہ تم میرے بیٹے نعمان کو اپنا غلام ہبہ کر دو اور اس پر میرے اطمینان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لو چنانچہ حضرت بشیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں کی بیٹی یعنی عمرہ بنت رواحہ نے جو میری بیوی ہے مجھ سے یہ خواہش کی ہے کہ میں اس کے بیٹے (نعمان) کو اپنا غلام ہبہ کر دوں نیز اس نے یہ بھی کہا ہے کہ اس بارے میں میرے اطمینان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا اس بیٹے کے اور بھائی بھی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے ان سب کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے جس طرح اس بیٹے نعمان کو دیا ہے انہوں نے کہا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مناسب نہیں ہے اور میں صرف حق بات پر گواہ بنتا ہوں۔ (مسلم)

تشریح :
حق سے مراد یا تو یہ ہے کہ میں صرف اسی معاملہ میں گواہ بنتا ہوں جو بلا شک و شبہ اور بلا کراہت خالص طور پر حق اور صحیح ہو یا پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی طور پر یہ فرمایا کہ میں حق پر گواہ بنتا ہوں باطل پر گواہ نہیں بنتا بہرکیف اس سلسلے میں تفصیلی بحث پہلی فصل کی حدیث نمبر٤ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں