مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ باری مقرر کرنے کا بیان ۔ حدیث 446

اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو

راوی:

وعنها قالت : والله لقد رأيت النبي صلى الله عليه و سلم يقوم على باب حجرتي والحبشة يلعبون بالحراب في المسجد ورسول الله صلى الله عليه و سلم يسترني بردائه لأنظر إلى لعبهم بين أذنه وعاتقه ثم يقوم من أجلي حتى أكون أنا التي أنصرف فاقدروا قدر الجارية الحديثة السن الحريصة على اللهو

اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرہ مبارک کے دروازہ پر کھڑے تھے اور حبشی لوگ مسجد میں اپنی برچھیوں کے کرتب دکھا رہے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر سے میرے لئے پردہ کر رکھا تھا تا کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کان اور مونڈھے کے درمیان سے ان حبشیوں کا کھیل کرتب دیکھتی رہوں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک پردہ کئے کھڑے رہے جب تک کہ میں خود وہاں سے نہ ہٹ گئی اس سے تم اس عرصہ کا اندازہ کر لو جس میں ایک صغیر السن لڑکی جو کھیل تماشہ کی شائق ہو کھڑی رہ سکتی ہے (یعنی خیال کرو کہ خورد سال لڑکیاں کھیل تماشہ دیکھنے کی کتنی شائق ہوتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ دیر تک کھڑے رہنا بھی ان کے لئے ایک معمولی بات ہوتی ہے چنانچہ میں بھی اس وقت جتنی دیر کھڑی رہی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی میری وجہ سے پردہ کئے کھڑے رہے، حاصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت دیر تک وہاں کھڑے ہو کر مجھے ان حبشیوں کا کھیل کرتب دکھاتے رہے)۔ (بخاری ومسلم)

تشریح :
" مسجد" سے مراد " رحبہ مسجد" ہے جو مسجد سے ملا ہوا ایک چبوترہ تھا، یعنی وہ حبشی مسجد میں اپنا کرتب نہیں دکھا رہے تھے بلکہ مسجد سے متصل رحبہ میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اگر نفس مسجد ہی مراد لی جائے یعنی یہ کہا جائے کہ ان کا کھیل کرتب مسجد ہی کے اندر ہو رہا تھا تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ ان کا برچھیوں کا کرتب دکھانا گویا جہاد کی ایک علامتی مشق تھی لہٰذا تیر اندازی کی طرح ان کا یہ کھیل کرتب بھی عبادت کی مانند تھا، ایسے ہی ان کا کھیل دیکھنا بھی پسندیدہ تھا بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پردہ واجب ہونے سے پہلے کا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں