مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 630

مقتول کافر کے بدلے میں قاتل مسلمان کو قتل کیا جاسکتا ہے یہ نہیں ؟

راوی:

وعن أبي جحيفة قال : سألت عليا رضي الله عنه هل عندكم شيء ليس في القرآن ؟ فقال : والذي فلق الحبة وبرأ النسمة ما عندنا إلا ما في القرآن إلا فهما يعطى رجل في كتابه وما في الصحيفة قلت : وما في الصحيفة ؟ قال : العقل وفكاك الأسير وأن لا يقتل مسلم بكافر . رواه البخاري
وذكر حديث ابن مسعود : " لا تقتل نفس ظلما " في " كتاب العلم "

اور حضرت جحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز ہے ؟ انہوں نے فرمایا " قسم ہے اس ذات کی جس نے اناج کو پیدا کیا اور جان کو وجود بخشا میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو قرآن میں موجود نہ ہاں قرآن کی وہ سمجھ (مجھ کو ضرور دی گئی ) جو کسی انسان کو عطا ہو سکتی ہے ، نیز ہمارے پاس کچھ چیزیں ہیں جو کاغذ میں لکھی ہوئی ہیں " میں نے عرض کیا کہ " وہ کیا چیزیں ہیں جو کاغذ میں لکھی ہوئی ہیں ؟ انہوں نے فرمایا (ناحق قتل ) کا خون بہا ، اس کی مقدار اور اس کے احکام اور قیدی کو چھوڑنے (کا ثواب لکھا ہے ) اور یہ لکھا ہے کہ کافر (جو ذمی نہ ہو) کے بدلہ میں مسلمان کو قتل نہ کیا جائے ۔" (بخاری )

تشریح :
ہاں قرآن کی وہ سمجھ جو کسی بھی انسان کو عطا ہو سکتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ فہم عطا فرمایا ہے جس سے میں قرآن کے معنی واحکام کا استنباط کرتا ہوں ، اس کے اجمال واشارات سے مطلع ہو جاتا ہوں اور اسی فہم کے ذریعہ میری رسائی ان پوشیدہ علوم اور باطنی اسرار تک ہو جاتی ہے جو علماء راسخین اور ارباب یقین پر منکشف ہوتے ہیں " ۔
ہمارے پاس کچھ ایسی چیزیں ہیں جو کاغذ میں لکھی ہوئی ہیں ۔ اس سے وہ نوشتہ مراد ہے جس میں حضرت علی نے خون بہا وغیرہ کے کچھ احکام ومسائل لکھ کر اس کو اپنی تلوار کی نیام میں رکھ رکھا تھا ۔علماء نے لکھا ہے کہ اس نوشتہ میں مذکورہ بالا تین چیزوں کے علاوہ اور بہت سی چیزوں کے احکام ومسائل لکھے ہوئے تھے ، جن کو یہاں ذکر نہیں کیا گیا ، کیونکہ اس باب میں صرف قصاص اور خون بہا کا ذکر کرنا مقصود ہے ، البتہ قیدی بعض نوعیت کے اعتبار سے چونکہ قریب القتل ہوتا ہے اس مناسبت سے اس کا بھی ذکر کر دیا گیا ۔
" کافر کے بدلے میں مسلمان کو قتل نہ کیا جائے گا " بہت سے صحابہ وتابعین ، تبع تابعین اور تینوں اماموں کا مسلک یہی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کافر کو قتل کر دے میں مقتول کافر کے بدلے میں قاتل مسلمان کو قتل نہ کیا جائے خواہ وہ مقتول کافر ذمی ہو یا حربی ہو لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور اکثر علماء کا مسلک یہ ہے کہ اگر یہ مقتول کافر ذمی ہو تو اس کے بدلے میں قاتل مسلمان کو قتل کیا جا سکتا ہے جو حدیث ان کے مسلک کی دلیل ہے وہ مرقات میں مذکور ہے ۔
حضرت ابوجحیفہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا اس کی بنیاد یہ تھی ۔ کہ شیعہ جن کا وجود مختلف صورتوں میں اس زمانہ میں تھا کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کے مخصوص افراد اور خاص طور پر حضرت علی کو علم وحی کے کچھ ایسے اسرار ونکات بتائے ہیں جو ان کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں بتائے گئے !یا پھر حضرت ابوجحیفہ نے یہ سوال اس لئے کیا کہ حضرت علی کے زمانہ میں کوئی بھی شخص علم وتحقیق میں حضرت علی کا ہمسر نہیں تھا ، ان کی اس غیر معمولی علمی خصوصیت وبرتری نے سب ہی کو حیران کر رکھا تھا کہ آخر ان کے پاس اتنا علم کہاں سے آیا؟ بہر کیف حضرت علی نے قسم کھا کر بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے دامن وعلم حکمت کو سب لوگوں سے زیادہ بھرا ہو یا دوسرے لوگوں کے سوا مجھے مخصوص طور پر تبلیغ وارشاد سے نوازا ہو ، بلکہ میرے پاس بھی وہی قرآن ہے ۔ جو دوسروں کے پاس ہے اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں ہے ، یا پھر وہ نوشتہ ہے ۔ جس میں کچھ چیزوں کے احکام لکھے ہوئے ہیں اور وہ میرے پاس محفوظ ہیں ۔ہاں مجھ میں اور دوسروں میں جو علمی تفاوت ہے اس کی بنیاد فہم اور استعداد واستنباط ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے مجھے قرآن کی وہ سمجھ عطا کی ہے اس کے ذریعہ میں قرآن کے علوم ومعانی تک رسائی حاصل کرتا ہوں اور پھر اس سے احکام ومسائل نکالتا ہوں اور یہ مجھ ہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ حق تعالیٰ جس شخص کو بھی یہ سمجھ ، ادارک اور فضیلت عطا فرما دے گا اس پر حکمت وعلوم کی راہیں منکشف ہو جائیں گی ۔ الحاصل تمام علوم ومعنی کی بنیاد چونکہ قرآن کریم ہے ۔ اسی لئے توفیق الٰہی اور تائید الٰہی سے جس شخص کو بھی قرآن کریم کا فہم حاصل ہو گیا اس پر تمام علوم اور حکمتوں کے دروازے کھل گئے یہ اور بات ہے کہ حق تعالیٰ اس نعمت سے کسی کسی ہی نوازتا ہے ، چنانچہ حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ قرآن میں تمام علوم ہیں لیکن (عام طور پر) لوگوں کے فہم (قرآن کی گہرائی تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں ) ۔
(وذکر حدیث بن مسعود لا تقتل نفس ظلما فی کتاب العلم ۔)
" اور حضرت ابن مسعود کی حدیث " از راہ ظلم کسی کی جان نہ لی جائے " کتاب العلم میں نقل کی جا چکی ہے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں