مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 631

خون مسلم کی اہمیت

راوی:

عن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لزوال الدنيا أهون على الله من قتل رجل مسلم " . رواه الترمذي والنسائي ووقفه بعضهم وهو الأصح
(2/288)

3463 – [ 18 ] ( لم تتم دراسته )
ورواه ابن ماجه عن البراء بن عازب
(2/288)

3464 – [ 19 ] ( لم تتم دراسته )
وعن أبي سعيد وأبي هريرة عن رسول صلى الله عليه و سلم قال : " لو أن أهل السماء والأرض اشتركوا في دم مؤمن لأكبهم الله في النار " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب

حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا ختم ہو جانا ایک مرد مؤمن کے قتل ہو جانے سے زیادہ سہل ہے ۔ (ترمذی ، نسائی )
اور بعض راویوں نے اس حدیث کو موقوف بیان کیا ہے (یعنی یہ کہا ہے کہ یہ حدیث نبوی نہیں ہے بلکہ عبداللہ ابن عمرو کا قول ہے ) اور یہی زیادہ صحیح ہے ، نیز ابن ماجہ نے اس روایت کو ( عبداللہ ابن عمرو کی بجائے ) حضرت براء ابن عازب سے نقل کیا ہے ۔"

تشریح :
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی چیزیں زمین وآسمان وغیرہ مسلمانوں کے لئے پیدا کی ہیں تاکہ وہ پروردگار کی عبادت کریں اور چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین رکھیں ، لہٰذا جس شخص نے کسی مسلمان کو کہ جس کے لئے یہ دنیا پیدا کی گئی ہے ، قتل کیا اس نے گویا پوری دنیا کو فنا کے گھاٹ اتار دیا ، چنانچہ اسی نکتہ کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے :
( مَنْ قَتَلَ نَفْسً ابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا ) 5۔ المائدہ : 32) ۔
" جس شخص نے کسی کو ناحق قتل کیا (یعنی بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے ملک میں فتنہ فساد پھیلانے کی سزا دی جائے، اس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا ۔"

اور حضرت ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اگر (یہ ثابت ہو جائے کہ آسمان والے اور زمین والے سب کے سب کسی ایک مرد مؤمن کے قتل میں شریک ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو دوزخ کی آگ میں الٹا ڈال دے گا امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"

تشریح :
بعض شارحین نے لکھا ہے لفظ اکبہم فعل لازم ہے اور لفظ کبہم فعل متعدی ہے لہٰذا یہاں کسی راوی سے سہو ہو گیا ہے کہ اس نے لکبہم کی بجائے لاکبہم نقل کر دیا ہے ، لیکن ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ لفظ اکبہ قاموس میں لازمی اور متعدی دونوں طرح نقل کیا گیا ہے ، اس اعتبار سے زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ ثقہ اور عادل راویوں کی طرف خطا اور سہو کی نسبت کرنے سے اولی اور احوط یہ ہے کہ بعض بلکہ تمام اہل لغت کی طرف خطا کی نسبت کر دی جائے ۔ بہر کیف چونکہ یہاں لفظ اکبہم ہے اس لئے اس موقع پر یہ تحقیق پیش کی گئی ، جامع صغیر میں اس روایت کے یہ الفاظ منقول ہیں (لکبہم اللہ عزوجل فی النار) ۔

یہ حدیث شیئر کریں