مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ سود کا بیان ۔ حدیث 64

سود کھانے پر وعید

راوی:

وعن عبد الله بن حنظلة غسيل الملائكة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة وثلاثين زنية " . رواه أحمد والدراقطني
وروى البيهقي في شعب الإيمان عن ابن عباس وزاد : وقال : " من نبت لحمه من السحت فالنار أولى به "

حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کا ایک درہم یہ جاننے کے باوجود کھانا کہ یہ سود ہے چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ بڑا گنا ہے (احمد دارقطنی) اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے نیز بیہقی نے اس روایت میں حضرت ابن عباس کے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس شخص کا گوشت حرام مال سے پیدا ہوا ہو (یعنی جس شخص کی جسمانی نشوونما حرام مال مثلًا سود و رشوت وغیرہ سے ہوئی ہو وہ شخص دوزخ ہی کے لائق ہے۔

تشریح :
جس طرح مذکورہ بالا وعید اس شخص کے بارے میں فرمائی گئی ہے جو سود کا مال یہ جاننے کے باوجود کھائے کہ یہ مال سودی ذریعے سے حاصل شدہ ہے اسی طرح اس وعید کا تعلق اس شخص سے بھی ہے جس نے لاعلمی میں سود کا مال کھایا بشرطیکہ اس لاعلمی میں خود اس کی اپنی کوتاہی یا لاپرواہی کا دخل ہو۔
علماء کہتے ہیں کہ سود کھانے کے گناہ کو زنا کے گناہ سے بھی زیادہ سخت اور بڑا گناہ اس لئے کہا گیا ہے کہ سود کھانے والے کے حق میں اللہ تعالیٰ نے جتنی سخت اور غضب ناک تنبیہہ فرمائی ہے اتنی سخت اور غضب ناک تنبیہہ زنا کی کسی بھی گناہ کے بارے میں نہیں فرمائی ہے چنانچہ سود کھانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یوں متنبہ کیا ہے
ا یت (فاذنوا بحرب من اللہ ورسول)
اعلان جنگ سن لو اللہ اور اس کے رسول کا
یہ بات ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ کسی کے خلاف اعلان جنگ کا کیا مطلب ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول جس شخص کے خلاف اعلان جنگ کرے یا جو شخص اللہ اور اس کے رسول سے برسر جنگ ہو اس کی محرومی شقاوت بدبختی اور دنیا وآخرت کی مکمل تباہی وبربادی کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ سود کھانے والے کے حق میں اتنی سخت وعید اور اتنی شدید وغضب ناک تنبیہہ کا سبب یہ ہے کہ سود کے بارے میں عملی طور پر ہی گمراہی کا صدور نہیں ہوتا بلکہ سود کی پہچان مشکل ہونے کی وجہ سے عموماً اعتقادی گمراہی میں بھی لوگ مبتلا ہوتے ہیں جس کا تنیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر لوگ سود کو حرام بھی نہیں سمجھتے بلکہ ان کے ذہن وفکر اور قلب ودماغ پر گمراہی وکجروی کی اتنی ظلمت چھائی ہوئی ہے کہ وہ سود کو حلال سمجھتے ہیں اور یہ معلوم ہی ہے کہ سود کی حرمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کا مرتکب ہونا عملی گمراہی یعنی گناہ کبیرہ ہے جس پر معافی بھی ممکن ہے مگر سود کی حرمت کا اعتقاد نہ رکھنا بلکہ اس کو حلال سمجھنا اعتقادی گمراہی وکجروی ہے جس کا آخری نتیجہ کفر ہے اور اس کی معافی وبخشش ناممکن ہے جبکہ زنا ایک فعل ہے جس کی حرمت وبرائی سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا جو شخص اس فعل میں مبتلا ہوتا ہے وہ بھی اس کی برائی کا بہرصورت اعتقاد رکھتا ہے یہاں تک کہ اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب وفرقے میں زنا ایک برائی ہی تصور کی جاتی ہے کوئی بھی اسے جائز اور حلال نہیں سمجھتا۔
اب رہی یہ بات کہ چھتیس کا عدد بطور خاص کیوں ذکر کیا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا مقصد محض سود کی حرمت کی اہمیت جتانا ہے یا اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں اور ان میں جو سب سے ادنی درجہ ہے وہ ایسا جیسا کہ کوئی شخص اپنی ماں سے صحبت کرے۔

حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود (سے حاصل شدہ مال خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر آخر کار اس میں کمی یعنی بے برکتی آ جاتی ہے ان دونوں روایتوں کو ابن ماجہ نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے نیز دوسری روایت کو امام احمد نے بھی نقل کیا ہے۔

تشریح :
سودی ذرائع سے حاصل ہونیوالا مال بظاہر تو بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے مگر چونکہ سودی مال میں خیر وبرکت کا کوئی جزء نہیں ہوتا اس لئے انجام کار وہ مال اس طرح تباہ وبرباد اور ختم ہو جاتا ہے کہ اس کا نام ونشان تک باقی نہیں رہتا یہ محض ایک وعیدی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو روزانہ نظروں کے سامنے آتی رہتی ہے چنانچہ اسی حقیقت کو قرآن کریم نے بھی ان الفاظ میں واضح کیا ہے
ا یت (يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرْبِي الصَّدَقٰتِ) 2۔ البقرۃ : 276)
اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو بڑھا دیتا ہے
اس آیت کا مطلب یہی ہے کہ انسان جو مال سود کے ذریعے حاصل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نیست ونابود کر دیتا ہے مگر انسان اپنی جائز محنت وحلال ذریعہ سے جو مال کما کر اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ بڑھا دیتا ہے گویا اس آیت میں سود اور صدقہ کو ایک ساتھ ذکر کر کے جہاں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان دونوں کی حقیقت میں تضاد ہے وہیں ان دونوں کے متضاد نتائج کی نشان دہی بھی کی گئی ہے چنانچہ ان دونوں کی حقیقت میں تضاد تو یہ ہے کہ صدقہ میں بغیر کسی معاوضے اور بغیر کسی لالچ کے انسان اپنا مال محض اللہ کی خوشنودی کے لئے دوسروں کو دیتا ہے جبکہ سود میں بغیر کسی معاوضہ کے انسان محض مال وزر کی ہوس اور دولت کی فراوانی کے جذبے کے تحت دوسرے سے مال حاصل کرتا ہے اس طرح دونوں کاموں کے کرنے والوں کی نیت اور غرض بالکل جدا جدا ہوتی ہے کہ صدقہ کرنیوالا محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کے ثواب کے لئے اپنے مال کو ختم کرنے یا کم کرنے کا فیصلہ کر کے ایک زبردست ایثار کرتا ہے اور سود لینے والا محض دنیاوی حرص وطمع کی بناء پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ وناراضگی سے بالکل بے پرواہ ہو کر اپنے موجودہ مال میں نا جائز زیادتی کا خواہش مند ہوتا ہے یہ تو سود اور صدقہ کی حقیقت کا تضاد تھا دونوں کے نتائج کا تضاد یہ ہے کہ جو مال اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغیر ناجائز طریقے یعنی سود سے حاصل کیا جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ مٹا دیتا ہے یا اس میں سے برکت اٹھا لیتا ہے اس کے برخلاف جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی وخوشنودی کی خاطر اپنا مال دوسروں کو دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بڑھا دیتا ہے بایں طور کہ اس کے موجودہ مال میں خیر وبرکت عطاء فرماتا ہے۔
اس آیت کے ذمن میں دونوں کے نتائج میں تضاد کا مطلب مفسرین نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ سود کو مٹانے اور صدقہ کو بڑھانے کا تعلق آخرت سے ہے یعنی سود خوار کو اس کا مال آخرت میں کچھ نفع نہیں پہنچائے گا بلکہ عذاب ہی کا موجب بنے گا جبکہ صدقہ کرنیوالے کا مال آخرت میں اس کے لئے ابدی سعادتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا پھر سود کا مٹایا جانا اور صدقہ کا بڑھایا جانا آخرت سے تو تعلق رکھتا ہی ہے مگر اس کے کچھ آثار دنیا ہی میں مشاہدہ ہو جاتے ہیں چنانچہ سود جس مال میں شامل ہو جاتا ہے بعض اوقات وہ مال اس طرح تباہ وبرباد ہو جاتا ہے کہ اس کا وہم وگمان بھی نہیں جیسا کہ سود اور سٹہ کے بازاروں میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے کروڑ پتی اور سرمایہ دار دیکھتے دیکھتے دیوالیہ ہو جاتے ہیں اگرچہ بے سود کی تجارتوں میں بھی نفع ونقصانات کے احتمال ضرور ہیں اور اسی وجہ سے بعض مرتبہ بے سود کی تجارت کرنیوالوں کو بھی کسی تجارت میں نقصان ہو جاتا ہے لیکن ایسا تاجر جو کل کروڑ پتی تھا اور آج ایک ایک پیسہ کی بھیک کا محتاج ہے یہ صرف سود اور سٹہ کے بازاروں ہی میں نظر آتا ہے۔
بہرکیف جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے سودی مال کا وقتی طور پر بڑھنا اور آخر میں تباہ وبرباد ہو جانا محض ایک شرعی وعید کے درجے کی بات نہیں ہے بلکہ اہل تجربہ کے بیانات بھی اس پر شاہد ہیں کہ سود کا مال فوری اور وقتی طور پر کتنا ہی بڑھ جائے لیکن وہ عمومًا ایسا دیر پا نہیں ہوتا کہ اس کا فائدہ نسلوں تک پہنچے اگر ایسی کوئی نہ کوئی صورت پیش آجاتی ہے جو سودی مال کو ختم یا کم کر دیتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں