مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ سود کا بیان ۔ حدیث 65

سود خوروں کی ظاہری خوشحالی سے دھوکہ نہ کھائیے :

راوی:

آج کل سود کا کاروبار عام ہے چپہ چپہ پر سود خوروں کا لین دین جاری ہے ان کے یہاں ظاہری طور پر مال ودولت کی ریل پیل نظر آتی ہے اسباب عیش وعشرت کی فراوانی ہر طرف رقصاں دیکھی جاتی ہے اسی لئے عام سطح میں لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ آج کل تو سود خوروں کو بڑی سے بڑی راحت حاصل ہے وہ کوٹھیوں بنگلوں اور عالیشان عمارتوں کے مالک ہیں نوکر چاکر اور شان وشوکت کے تمام سامان موجود ہیں اس لئے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سود خوروں کو دنیا میں بھی راحت حاصل نہیں ہوتی اور ان کا مال وزر ان کا ساتھ نہیں دیتا حالانکہ غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح نظر آئے گی کہ سامان راحت اور راحت میں بڑا فرق ہے سامان راحت تو آپ کارخانوں اور فیکٹریوں اور بازاروں سے حاصل کر سکتے ہیں وہ سونے چاندی اور سکون کے عوض مل سکتا ہے لیکن جس چیز کا نام راحت ہے وہ نہ کسی فیکٹری میں بنتی ہے اور نہ کسی بازار سے دستیاب ہوتی ہے بلکہ وہ ایک ایسے روحانی اطمینان اور قلب ودماغ کے ایسے سکون کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کی صورت میں براہ راست انسان کو عطا ہوتا ہے جو بعض اوقات بالکل بے سروسامان انسان اور جانوروں تک کو میسر آ جاتا ہے اور بعض اوقات ہزاروں اسباب عیش وعشرت اور سامان راحت رکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہو سکتا ایک نیند کو لے لیجئے یہ نیند کیا ہے ایک راحت وسکون کا نام ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے آپ یہ تو کر سکتے ہیں کہ ایک اعلی قسم کی خواب گاہ بنوا لیں جس میں ہوا روشنی کا پورا انتظام ہو عمدہ قسم کے اور آرام دہ پلنگ ہوں دلفریب ودل کش گدیلے بستر اور ملائم تکیے ہوں لکین آپ خود بتائیے کیا ان سامانوں کے مہیا ہو جانے پر نیند کا آ جانا لازمی ہے اگر آپ کو خود اس کا تجربہ نہیں ہے تو وہ ہزاروں آدمی اس کا جواب نفی میں دیں گے جنہیں کسی عارضے کی وجہ سے نیند نہیں آتی ان کے لئے یہ سامان دھرے رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ خواب آور دوائیاں بھی جواب دے دیتی ہیں چنانچہ نیند کے سامان تو بازار سے آگئے لیکن نیند کسی بازار سے کسی بھی قیمت پر نہیں لائی جاسکتی اسی طرح دوسری لذتوں اور راحتوں کا حال ہے ان کے اسباب تو روپیہ پیسہ کے ذریعے حاصل ہو سکتے ہیں مگر ان راحتوں اور لذتوں کا حاصل ہونا ان اسباب کے باوجود بھی ضروری نہیں ہے یہ بات سمجھ لینے کے بعد سود خوروں کے حالات کا جائزہ لیجئے تو ان کے پاس آپ کو سب کچھ ملے گا مگر راحت اور اطمینان کا نام نہ پائیں گے وہ اپنی حرص وہوس میں اپنی تجوریوں کو بھرنے اور اپنے ایک کروڑ کو ڈیڑھ کروڑ دو کروڑ بنانے میں ایسے مست نظر آتے ہیں کہ نہ ان کو اپنے کھانے پینے کا ہوش رہتا ہے نہ اپنی بیوی بچوں کا خیال ایمانداری سے بتائیے کیا اطمینان وراحت اسی طرح حاصل ہوتا ہے صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک مال ودولت کو بڑھانے کی ادھیڑ بن میں اپنے آپ کو فنا کر دینے کا نام راحت ہے؟ کتنے بے وقوف ہیں وہ لوگ جنہوں نے اسباب راحت کا نام راحت رکھ لیا ہے اور جو حقیقی راحت ہے اس سے کو سوں دور ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں