مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 641

قصاص ودیت کے بارے میں سب مسلمان برابر ہیں

راوی:

وعن علي رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " المسلمون تتكافأ دماؤهم ويسعى بذمتهم أدناهم ويرد عليهم أقصاهم وهم يد على من سواهم ألا لا يقتل مسلم بكافر ولا ذو عهد في عهده " . رواه أبو داود والنسائي
(2/290)

3476 – [ 31 ] ( صحيح )
ورواه ابن ماجه عن ابن عباس

اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصاص اور دیت میں سب مسلمان برابر ہیں اور ایک ادنی مسلمان بھی امان دے سکتا ہے اور دور والا مسلمان بھی حق رکھتا ہے اور سب مسلمان ایک ہاتھ کی طرح ہوتے ہیں (یعنی تمام مسلمان غیر مسلموں کے مقابلہ میں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہونے میں ایک ہاتھ کی مانند ہوتے ہیں کہ جس طرح کسی چیز کو پکڑنے یا سکون و حرکت کے موقع پر ایک ہاتھ کے تمام اجزاء میں کوئی مخالفت یا جدائی نہیں ہوتی اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ غیروں کے مقابلے پر متحد ومتفق رہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں ) اور خبر دار! کافر کے بدلے میں مسلمان نہ مارا جائے اور نہ عہد والے (یعنی ذمی ) کو مارا جائے جب تک کہ وہ عہد وضمان میں ہے ۔ ابوداؤد ، نسائی ) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کیا ہے ۔"

تشریح :
سب مسلمان برابر ہیں : " کا مطلب یہ ہے کہ قصاص اور خون بہا کے لینے دینے میں سب مسلمان برابر ہیں اور یکساں ہیں شریف اور رزیل میں ، چھوٹے درجہ والا کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے ، یا بڑی ذات والے کے خون بہا کی مقدار پوری دی جائے اور چھوٹی ذات والے کے خون بہا کی مقدار کم دی جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں رواج تھا کہ اگر کوئی باحیثیت آدمی کسی کم حیثیت والے کو قتل کر دیتا تھا وہ تو قصاص میں اس کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اس عوض میں اس کے قبیلے کے ان چند آدمیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا جو زیردست ہوتے تھے ۔
" اور ایک ادنی مسلمان بھی امان دے سکتا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمانوں میں کا کوئی ادنی ترین فرد جیسے غلام یا عورت کسی کافر کو امان دے دے تو سب مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کافر کو امان دیں اور اس کے جان ومال کی حفاظت کا جو عہد اس مسلمان کی طرف سے کیا گیا ہے اس کو نہ توڑیں ۔
" اور دور والا مسلمان بھی حق رکھتا ہے " اس جملہ کے دو مطلب یہ ہے کہ اگر کسی ایسے مسلمان نے جو درالحرب سے دور رہ رہا ہے کسی کافر کو امان دے رکھی ہے تو ان مسلمانوں کے لئے جو دار الحرب کے قریب ہیں یہ جائز نہیں ہے کہ اس مسلمان کے عہد امان کو توڑ دیں ۔ دوسرے معنی یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا لشکر دار الحرب میں داخل ہو جائے ، اور مسلمانوں کا امیر لشکر کے ایک دستہ کو کسی دوسری سمت میں بھیج دے اور پھر وہ دستہ مال غنیمت لے کر واپس آئے تو وہ مال غنیمت صرف اسی دستہ کا حق نہیں ہوگا ، بلکہ وہ سارے لشکر والوں کو تقسیم کیا جائے گا ۔
" جب تک کہ وہ عہد وضمان میں ہے " کا مطلب یہ ہے کہ جو کافر جزیہ (ٹیکس ) ادا کر کے اسلامی سلطنت کا وفادار شہری بن گیا ہے اور اسلامی سلطنت نے اس کے جان ومال کی حفاظت کا عہد کر لیا ہے توجب تک وہ ذمی ہے اور اپنے ذمی ہونے کے منافی کوئی کام نہیں کرتا اس کو مسلمان قتل نہ کرے بلکہ اس کی حفاظت کو ذمہ داری سمجھے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون حکومت کی نظر میں ایک ذمی کے خون کی بھی وہی قیمت ہے جو ایک مسلمان کے خون کی ہے لہٰذا اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو ناحق قتل کر دے تو اس کے قصاص میں اس کے قاتل مسلمان کو قتل کر دینا چاہئے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک ہے ۔
اس نکتہ سے حدیث کے اس جملہ " کافر کے بدلے میں مسلمان کو نہ مارا جائے " کا مفہوم بھی واضع ہو گیا کہ یہاں " کافر" سے مراد حربی کافر ہے نہ کہ ذمی !حاصل یہ ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک کسی مسلمان کو حربی کافر کے قصاص میں تو قتل نہ کیا جائے لیکن ذمی کے قصاص میں قتل کیا جائے اور حضرت امام شافعی کے نزدیک کسی مسلمان کو کسی کافر کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے خواہ وہ کافر حربی ہو یا ذمی ۔

یہ حدیث شیئر کریں