مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 643

قتل خطاء کا حکم

راوی:

وعن طاووس
عن ابن عباس عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " من قتل في عمية في رمي يكون بينهم بالحجارة أو جلد بالسياط أو ضرب بعصا فهو خطأ عقله الخطأ ومن قتل عمدا فهو قود ومن حال دونه فعليه لعنة الله وغضبه لا يقبل منه صرف ولا عدل " . رواه أبو داود والنسائي

اور حضرت طاوس ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص لوگوں کے درمیان پتھراؤ میں یا کوڑوں اور لاٹھیوں کی اندھا دھند مار میں مار جائے (یعنی یہ نہ پتہ چلے ) کہ اس کا قاتل کون ہے ) تو یہ قتل (گناہ نہ ہونے کے اعتبار سے ) قتل خطاء کے حکم میں ہو گا (کیونکہ وہ بلا قصد قتل مارا گیا ہے ) اور اس کی دیت ، قتل خطا کی دیت ہے اور جو شخص جان بوجھ کر مارا گیا تو اس کا قتل ، قصاص کو واجب کرے گا اور جو شخص قصاص لینے میں حائل (مزاحم ) ہو اس پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہے نہ اس کے نفل قبول کئے جائیں گے اور نہ فرض ۔" (ابو داؤد ، نسائی )

تشریح :
" لوگوں کے درمیان پتھراؤ الخ " کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً زید کسی ایسی جگہ گھر گیا جہاں دو مخالف گروہ آپس میں لڑ رہے تھے ۔ اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر پتھراؤ ہو رہا تھا کہ اچانک ایک پتھر اس (زید) کے آ کر لگا ۔ اور وہ مر گیا ۔گویا اگر کوئی شخص پتھر کی ضرب سے مر جائے بلکہ یوں کہے کہ یہاں " پتھر " کا ذکر محض اتفاقی ہے مراد یہ ہے کہ کسی بھی مثقل (بھاری ) چیز کی ضرب سے مر جائے تو یہ قتل قصاص کو واجب نہیں کرتا بلکہ اس میں دیت واجب ہوتی ہے اور دیت بھی وہ جو قتل خطاء میں واجب ہوتی ہے ۔فقہا کی اصطلاح میں اس کو قتل کو " شبہ عمد " کہتے ہیں ، چنانچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک شبہ عمد کی تعریف یہ ہے کہ " وہ قتل جو کسی غیر دھار دار چیز سے واقع ہوا ہو اگرچہ وہ کوئی ایسی چیز سے نہ ہو جس سے اکثر ہلاکت واقع ہو جاتی ہو" لیکن صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک شبہ عمد کی تعریف یہ ہے کہ وہ قتل جو باارادہ قتل کسی ایسی چیز سے ہوا ہو جس سے اکثر ہلاکت واقع نہ ہوتی ہو اور جو قتل کسی ایسی چیز سے ہوا جس سے اکثر ہلاکت واقع ہو جاتی ہو قتل عمد میں داخل ہوگا ، لہٰذا حدیث میں مذکورہ چیزیں یعنی پتھر اور لاٹھی ، حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تو اپنے مطلق معنی پر محمول ہیں کہ خواہ وہ ہلکی ہوں یا بھاری جب کہ صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک یہ چیزیں ہلکی ( غیر مثقل ) ہونے پر محمول ہیں گویا خلاصہ یہ نکلا کہ جو قتل مثقل (بھاری ) چیز کے ذریعہ ہوا اس میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک قصاص واجب نہیں ہوگا اور صاحبین اور حضرت امام شافعی کے نزدیک مذکورہ بالا تفصیل کا اعتبار کیا جائے گا ۔
قتل کی قسمیں :
فقہا کے نزدیک قتل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ (١) قتل عمد۔ (٢) قتل شبہ عمد۔ (٣) قتل خطا ۔ (٤) قتل جاری مجری خطا ۔ (٥) قتل بسبب۔
(١) قتل عمد یہ ہے کہ مقتول کو کسی چیز سے مارا جائے جو اعضاء کو جدا کر دے (یا اجزاء جسم کو پھاڑ ڈالے ) خواہ وہ ہتھیار کی قسم سے ہو یا پتھر ، لکڑی ، کھیاچ کی قسم سے کوئی تیز (دھار دار ) چیز ہو اور مادہ آگ کا شعلہ ہو ، صاحبین کے نزدیک قتل عمد کی تعریف یہ ہے کہ " مقتول بارادہ قتل کسی ایسی چیز سے مارا جائے جس سے عام طور پر انسان کو ہلاک کیا جا سکتا ہے " قتل عمد کا مرتکب سخت گناہگار ہوتا ہے اور اس قتل کی سزا قصاص (یعنی مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کر دینا ) ہے الاّ یہ کہ مقتول کے ورثاء اس کو معاف کر دیں یا دیت (مالی معاوضہ ) لینے پر راضی ہو جائیں ، اس میں کفارہ واجب نہیں ہوتا ۔
قتل شبہ عمد ۔ یہ ہے کہ مقتول کو مذکورہ بالا چیزوں (ہتھیار اور دھار دار چیز وغیرہ ) کے علاوہ کسی اور چیز سے قصدًا ضرب پہنچائی گئی ہو قتل کی یہ صورت بھی (باعتبار ترک عزیمت اور عدم احتیاط ) گنہگار کرتی ہے ، لیکن اس میں قصاص کی بجائے قاتل کے عاقلہ (برادری کے لوگوں ) پر دیت مغلظہ واجب ہوتی ہے (دیت مغلظہ چار طرح کے سو اونٹوں کو کہتے ہیں ، لیکن اگر ہلاکت واقع نہ ہو تو قصاص واجب ہوتا ہے یعنی اس کی وجہ سے مرنے کی بجائے مضروب کا کوئی عضو کٹ گیا ہو تو مارنے والے کا بھی وہی عضو کاٹا جائے گا ۔
قتل خطاء کی دو قسمیں ہیں ، ایک تو یہ کہ " خطاء " کا تعلق " قصد " سے ہو ، مثلا ایک چیز کا شکار گمان کر کے تیر یا گولی کا نشان بنایا گیا مگر وہ آدمی نکلا یا کسی شخص کو حربی کافر سمجھ کر تیر یا گولی کا نشانہ بنایا مگر وہ مسلمان نکلا ۔ دوسرے یہ کہ " خطا " کا تعلق " فعل سے ہو مثلا کسی خاص نشانہ پر تیر یا گولی چلائی گئی مگر وہ تیر یا گولی بہک کر کسی آدمی کے جالگی ۔"
قتل جاری مجریٰ خطاء کی صورت یہ ہے مثلا ایک شخص سوتے میں کسی دوسرے شخص پر جا پڑا اور اس کو ہلاک کر ڈالا !قتل خطاء اور جاری مجریٰ خطاء میں کفارہ لازم آتا ہے اور عاقلہ پر دیت واجب ہوتی ہے ، نیز ان صورتوں میں (باعتبار ترک عزیمت ) گناہ بھی ہوتا ہے ۔
قتل بسبب یہ ہے کہ مثلا کسی شخص نے دوسرے شخص کی زمین میں اس کی اجازت کے بغیر کنواں کھدایا کوئی پتھر رکھ دیا اور کوئی تیسرا شخص اس کنویں میں گر کر یا اس پتھر سے ٹھوکر کھا کر مر گیا ۔ اس صورت میں عاقلہ پر دیت واجب ہوتی ہے کفارہ لازم نہیں آتا ۔ یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ قتل کی پہلی چار قسمیں یعنی عمد، شبہ عمد ، اور جاری مجریٰ خطاء میں قاتل ، مقتول کی میراث سے محروم ہو جاتا ہے (اور وہ صورت کہ مقتول ، قاتل کا مورث ہو) اور پانچویں قسم یعنی " قتل بسبب " میں قاتل ، مقتول کی میراث سے محروم نہیں ہوتا ۔

یہ حدیث شیئر کریں