مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ سود کا بیان ۔ حدیث 70

ربا کی تشریح کے متعلق حضرت عمر کا ارشاد

راوی:

وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه إن آخر ما نزلت آية الربا وإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قبض ولم يفسرها لنا فدعوا الربا والريبة . رواه ابن ماجه والدارمي

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو چیز نازل ہوئی یعنی قرآن کریم اس کا معاملات سے متعلق جو حصہ سب سے آخر میں نازل ہوا ہے وہ ربا کی آیت ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے اس حالت میں تشریف لے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان نہیں فرمائی لہذا سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو ( ابن ماجہ دارمی)

تشریح :
یہ بات ابتداء میں بتائی جا چکی ہے کہ سود کی مروجہ شکل یعنی قرض وادھار پر متعین نفع لینا اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی اور لوگوں میں اس طرح کے سود کا بہت زیادہ رواج تھا چنانچہ قرآن کریم نے جب ربا کی حرمت بیان کی اور آیت ربا نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت کے اس حکم کو نہ صرف اس وقت کے رائج ومتعارف سود پر نافذ کیا بلکہ ربا کے مفہوم کو وسعت دیکر اشیاء کے باہمی لین دین اور خرید وفروخت کی بعض صورتوں کو بھی ربا کے حکم میں داخل فرمایا جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں ذکر کی جا چکی ہے لیکن صورت یہ ہوئی کہ آیت ربا نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں بہت کم عرصہ تشریف فرما رہے اس تھوڑی مدت میں دیگر دینی وضروی مصروفیات میں اتنا انہماک رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لین دین کی ان صورتوں کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیں فرمایا یہاں تک آپ واصل بحق ہوگئے چنانچہ حضرت فاروق اعظم کے اس ارشاد میں تفصیل سے مراد انہیں صورتوں کی تشریح وتفصیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چھ چیزوں (سونا چاندی گیہوں جو کھجور نمک) کے باہمی لین دین کی بعض صورتوں کو ربا کے حکم میں داخل فرمایا تھا آیا یہ حکم ان چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ چیزیں بطور مثال کے بیان فرمائیں اور بقیہ چیزوں کو قیاس واجتہاد پر موقوف رکھا ؟ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنیوالے ائمہ مجتہدین امام ابوحنیفہ امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اپنے اپنے اجتہاد سے ان چیزوں کا ایک ضابطہ بنایا اور دوسری چیزوں کو بھی اس ضابطہ کے ماتحت اس حکم میں داخل قرار دیا اس کی تفصیل بھی گذشتہ صفحات میں ذکر کی جا چکی ہے۔
حاصل یہ کہ نزول قرآن سے سود کا ایک مخصوص معاملہ یعنی قرض دے کر اس پر نفع لینا عربی زبان میں لفظ ربا کے ساتھ متعارف چلا آرہا تھا اور پورے عرب میں اس کا رواج تھا چنانچہ اہل عرب صرف اسی خاص معاملہ کو ربا کہتے اور سمجھتے تھے اسی ربا کو قرآن کریم نے حرام فرمایا لہذا ربا کی اس صورت میں نہ کوئی ابہام تھا نہ اجمال اور اسی لئے جب قرآن کریم نے ربا کی حرمت کا ذکر کیا تو نہ کسی کو اس کے سمجھنے میں دقت ہوئی اور نہ کسی کو اس پر عمل کرنے میں ایک منٹ کا بھی تامل وتردد ہوا البتہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باشارات وحی الٰہی ربا کے مفہوم میں اور چند معاملات کا اضافہ فرمایا تو چونکہ وہ معاملات اہل عرب کے متعارف مفہوم سے الگ اور ان کے مروجہ سود سے ایک زائد چیز تھی اور پھر اتفاق کی بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ربا کے اس وسیع مفہوم کی تفصیلات پوری تشریح کے ساتھ بیان فرمانے سے پہلے اس دنیا سے تشریف لے گئے اسی وجہ سے اس کی تشریحات میں حضرت فاروق اعظم کو کچھ اشکالات پیش آئے بالآخر انہوں نے اپنے اجتہاد سے احتیاط کا پہلو اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ربا کی جو صورتیں بالکل واضح اور متعین ہیں جیسی مروجہ سود یا اشیاء کے باہمی لین دین کی وہ صورتیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی ہیں ان کو بھی ترک کر دو اور ان سے مکمل اجتناب کرو اور جس چیز میں سود کا شبہ اور شائبہ بھی محسوس ہو جائے ازارہ ورع واحتیاط اسے بھی چھوڑ دو اور اس سے پرہیز کرو۔

یہ حدیث شیئر کریں