مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 727

شبہ کا فائدہ ملزم کو ملنا چاہئے

راوی:

وعنها قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ادرؤا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن كان له مخرج فخلوا سبيله فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبة " . رواه الترمذي وقال : قد روي عنها ولم يرفع وهو أصح

اور حضرت عائشہ راوی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو حد کی سزا سے بچاؤ اگر مسلمان (ملزم ) کے لئے بچاؤ کا ذرا بھی کوئی موقع نکل آئے تو اس کی راہ چھوڑ دو یعنی اس کو بری کر دو کیونکہ امام یعنی حاکم ومنصف کا معاف کرنے میں خطا کرنا ، سزا دینے میں خطا کرنے سے بہتر ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کی گئی ہے اور اس کا سلسلہ رواۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچایا گیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ کا اپنا ارشاد ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ حدیث موقوف ثابت ہوتی ہے وہ اس سلسلہ سند سے زیادہ صحیح اور قوی ہے جس سے اس کا حدیث مرفوع ہونا معلوم ہوتا ہے ۔"

تشریح :
اس ارشاد کے مخاطب دراصل حکام ہیں جنہیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کے بارے میں کوئی ایسا قضیہ ان کے پاس آئے جس کی سزا حد ہے مثلاً زنا کا قضیہ ، تو انہیں چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اس مسلمان کو " حد " سے بچانے کی کوشش کریں اور شبہ کا جو بھی موقع نکلتا ہو اس کا فائدہ ملزم کو پہنچائیں ، یہی نہیں بلکہ وہ ملزم کو عذر کی تلقین کریں یعنی اس سے پوچھیں کہ کیا تم دیوانے ہو؟
کیا تم نے شراب پی رکھی ہے ؟ کیا ایسا تو نہیں ہے کہ تم نے اس عورت سے زنا کے ارتکاب کے بجائے اس کا بوسہ لے لیا ہو یا شہوت کے ساتھ اس کو چھو لیا ہو ۔ اور اب تم اس کو اپنے اقرار میں زنا سے تعبیر کر رہے ہو غرضیکہ اس سے اس قسم کے سوالات کئے جائیں تاکہ وہ اس تلقین عذر کی بنا پر کوئی عذر بیان کر دے جس سے حد کا اجراء نہ ہو سکے اور وہ بری ہو جائے ، چنانچہ ماعز وغیرہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس قسم کے سوالات کئے ان کا مقصد بھی تلقین عذر تھا ۔
آخر میں نے جو یہ فرمایا کہ امام کے معاف کرنے میں خطاء سزا دینے میں خطا کرنے سے بہتر ہے تو اس کا منشاء بھی مذکورہ بالا بات کو مبالغہ وتاکید کے ساتھ بیان کرنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی حاکم کسی مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے ملزم کو بری کر دے اور اس کے اس فیصلہ میں کوئی غلطی ہو جائے یا وہ ملزم کو سزا دینے کا فیصلہ کرے اور اس میں کوئی غلطی ہو جائے تو اگرچہ غلطی کے اعتبار سے دونوں ہی فیصلے محل نظر ہوں گے اور انصاف کے معیار پر پورے نہیں اتریں گے لیکن چونکہ ملزم کی برأت میں بہرحال ایک مسلمان کی جان وعزت بچ جائے گی ۔ اس لئے یہ غلطی اس غلطی سے بہتر ہوگی جو سزا کے فیصلہ میں سرزد ہو اور جس کے نتیجے میں ایک مسلمان کو اپنی جان اور عزت سے ہاتھ دھونا پڑے ۔

یہ حدیث شیئر کریں