مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 728

زنا بالجبر میں صرف مرد پر حد جاری ہوگی

راوی:

وعن وائل بن حجر قال : استكرهت امرأة على عهد النبي صلى الله عليه و سلم فدرأ عنها الحد وأقامه على الذي أصابها ولم يذكر أنه جعل لها مهرا . رواه الترمذي
(2/312)

3572 – [ 18 ] ( صحيح )
وعنه : أن امرأة خرجت على عهد النبي صلى الله عليه و سلم تريد الصلاة فتلقاها رجل فتجللها فقضى حاجته منها فصاحت وانطلق ومرت عصابة من المهاجرين فقالت : إن ذلك الرجل فعل بي كذا وكذا فأخذوا الرجل فأتوا به رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال لها : " اذهبي فقد غفر الله لك " وقال للرجل الذي وقع عليها : " ارجموه " وقال : " لقد تاب توبة لو تابها أهل المدينة لقبل منهم " . رواه الترمذي وأبو داود

اور حضرت وائل ابن حجر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی یعنی ایک مرد نے اس سے زبردستی زنا کیا اس عورت کو تو حد سے برأت دی گئی لیکن اس زنا کرنے والے پر حد جاری کی گئی ۔ راوی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو زنا کرنے والے سے مہر بھی دلوایا ۔" (ترمذی)

تشریح :
راوی کے ذکر نہ کرنے سے لازم نہیں آتا کہ ایسی صورت میں مہر واجب نہیں ہوتا کیونکہ دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جس عورت سے زنا بالجبر کیا گیا ہو اس کے لئے مہر واجب ہوتا ہے اور یہاں " مہر " سے مراد " عقر " صحبت حرام اور صحبت تشبہ کے مابین (عوض اور بدلہ ) کو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق ایک ایسی مقدار پر ہوتا ہے کہ اگر حرام صحبت کی اجرت یعنی حلال ہوتی تو وہ مقدار واجب ہوتی ۔ برجندی فتاویٰ عالمگیری میں یہ لکھا ہے کہ " عقر " مہر مثل کو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بالجبر کی صورت میں زنا کرنے والے مرد سے عورت کو جو رقم دلوائی جائے گی اس کی مقدار اس عورت کے مہر کے مثل کے برابر ہونی چاہئے ۔

اور حضرت وائل ابن حجر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دن ایک عورت نماز کے لئے گھر سے نکلی تو راستہ میں اس کو ایک شخص ملا جس نے اس پر کپڑا ڈال کر اس سے اپنی حاجت پوری کرلی یعنی اس کے ساتھ زبردستی زنا کیا وہ عورت چلائی اور وہ مرد اس کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا ، جب کچھ مہاجر صحابہ ادھر سے گزرے تو اس عورت نے ان کو بتایا کہ اس شخص نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے یعنی میرے اوپر کپڑا ڈال کر مجھے بے بس کر دیا اور پھر مجھ سے بدکاری کی لوگوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور سارا واقعہ بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے تو یہ فرمایا کہ جاؤ تمہیں اللہ تعالیٰ نے بخشش دیا ہے ۔ (کیونکہ اس بدکاری میں نہ صرف یہ کہ تمہاری خواہش ورضا کا داخل نہیں تھا بلکہ تمہیں مجبور وبے بس بھی کر دیا گیا تھا ) اور جس شخص نے اس عورت سے بدکاری کی تھی اس کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ اس کو سنگسار کر دیا جائے یعنی اس نے اپنے جرم کا اقرار کیا اور چونکہ وہ محصن تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس کو سنگسار کر دو چنانچہ اس کو سنگسار کر دیا گیا ۔ اس سنگسار کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنے اوپر حد جاری کرا کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس طرح کی توبہ مدینہ والے کرتے تو ان کی توبہ قبول کی جاتی ۔" (ترمذی ابوداؤد )

تشریح :
حدیث کے آخر جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے جرم کی سزا بھگت کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس توبہ کو اہل مدینہ کے درمیان تقسیم کیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ ان سب کی توبہ قبول کی جاتی بلکہ اس کا ثواب سارے مدینے والوں کے لئے کافی ہو جاتا ۔ گویا اس ارشاد کے ذریعہ آپ نے یہ واضح کیا کہ اس شخص نے اگرچہ شروع میں ایک بڑی بے حیائی کا ارتکاب کیا اور سخت برا کام کیا مگر جب اس پر حد جاری کر دی گئی تو وہ اپنے جرم سے پاک ہو گیا اور بخش دیا گیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں