مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امارت وقضا کا بیان ۔ حدیث 812

اگر حاکم کی طرف سے کسی کی حق تلفی ہوتب بھی اس کی فرمانبرداری کی جائے ۔

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود قال : قال لنا رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إنكم سترون بعدي أثرة وأمورا تنكرونها " قالوا : فما تأمرنا يا رسول الله ؟ قال : " أدوا إليهم حقهم وسلوا الله حقكم "
(2/336)

3673 – [ 13 ] ( صحيح )
وعن وائل بن حجر قال : سأل سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : يا نبي الله أرأيت إن قامت علينا أمراء يسألونا حقهم ويمنعونا حقنا فما تأمرنا ؟ قال : " اسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم " . رواه مسلم

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ " تم میرے بعد اپنے ساتھ ترجیحی سلوک اور بہت سی ایسی چیزوں کو دیکھو گے جس کو تم برا سمجھو گے ۔" صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا ہدایت دیتے ہیں (ہمیں کیا ہدایت دیتے ہیں (کہ اس وقت ہمارا رویہ کیا ہو ؟ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ان (حاکموں ) کا حق ادا کرو اور اپنا حق اللہ تعالیٰ سے مانگو ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ اگر تمہارے حاکم تمہارے ساتھ ترجیحی سلوک کریں بایں طور کہ تمہاری حق تلفی کریں تو ایسی صورت میں بھی ان کے تئیں تمہارا رویہ یہی ہونا چاہئے کہ تم ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرو یعنی ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرو اور ان کے مددگار ومعین بنے رہو اور وہ تمہارے حق کی ادائیگی میں جو کوتاہی کریں ان پر صبر کرو اور بارگاہ کبریائی میں التجاء کرو کہ وہ تمہیں تمہارے حق کا نعم البدل عطا کرے ۔

اور حضرت وائل بن حجر کہتے ہیں کہ حضرت سلمہ ابن یزید جعفی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور کہا کہ " یا رسول اللہ ! اس بارے میں ہمارے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا ہدایت ہے کہ اگر ہم پر ایسے حاکم مقرر ہوں جو ہم سے تو اپنے حق (یعنی اطاعت و فرمانبرداری کا مطالبہ کریں لیکن ہمیں ہمارا حق ( یعنی عدل وانصاف اور مال غنیمت کا حصہ نہ دیں ؟ آپ نے فرمایا " تم ظاہر میں ان کی بات سنو اور باطن میں ) ان کی فرمانبرداری کرو (یعنی ان کی بات اور ان کے احکام کو سننا ظاہری اطاعت ہے ) اور ان کے احکام پر عمل کرنا باطنی فرمانبرداری ہے ) یاد رکھو! ان پر وہ چیز فرض ہے جو ان کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے (یعنی رعایا کو عدل وانصاف دینا اور ان کے حقوق ادا کرنا اور تم پر وہ چیز فرض ہے جو تمہارے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے (یعنی اپنے حاکم وسردار کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور اگر ان حاکموں کی طرف سے تمہاری حق تلفی ہو یا اور کوئی مصیبت پیش آئے تو اس پر صبر کرنا ۔" (مسلم )

تشریح :
حدیث کا حاصل و رعایا میں سے ہر ایک کے سپرد ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا کرنا ہر ایک پر واجب ہے جس طرح حاکم کے کاندھوں پر عوام کے حقوق کا تحفظ اور ان کو عدل وانصاف دینے کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا اس پر واجب ہے ، اسی طرح رعایا کے کاندھوں پر اپنے حاکم کی مدد واعانت اور اس اطاعت کی فرنبرداری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنا رعایا واجب ہے لہٰذا دونوں ہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں ۔

یہ حدیث شیئر کریں