مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1076

ظالم حکمرانوں کے زمانے میں نجات کی راہ

راوی:

عن عمر بن الخطاب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنه تصيب أمتي في آخر الزمان من سلطانهم شدائد لا ينجو منه إلا رجل عرف دين الله فجاهد عليه بلسانه ويده وقلبه فذلك الذي سبقت له السوابق ورجل عرف دين الله فصدق به ورجل عرف دين الله فسكت عليه فإن رأى من يعمل الخير أحبه عليه وإن رأى من يعمل بباطل أبغضه عليه فذلك ينجو على إبطانه كله

" حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میری امت کو آخری زمانہ میں اپنے حکمرانوں کی طرف سے (دینی یا دنیاوی) سختیاں اور بلائیں جھیلنا پڑیں گی اور اس وقت ان بلاؤں اور سختیوں سے نجات کی راہ پانے والا ایک شخص تو وہ ہوگا جو اللہ کے دین کو سمجھے گا (یعنی اپنے اندر علم وعمل کو یکجا کرے گا، معرفت و یقین کی دولت کے ذریعہ خود بھی کمال کے درجہ کو پہنچے گا اور دوسروں کو بھی کامل کرے گا، اور اس طرح پہلے تو وہ اللہ کے دین سے بھی تفصیل اصول جزئیات اچھی طرح واقف وآگاہ ہوگا اور پھر اس علم کے مطابق اپنے نفس کو عمل کے سانچے میں ڈھالے گا اور صرف مشروع چیزوں کو اختیار کرے گا جس کی وجہ سے اس کے اندر ظلم و ناانصافی کے خلاف سعی اور جدو جہد کرنے کا عزم وحوصلہ پیدا ہوگا) چنانچہ وہ شخص اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لئے اپنی زبان اپنے ہاتھ اور اپنے دل کے ذریعہ جہاد کرے گا (یعنی بطریق وعظ ونصیحت زبان کے ذریعہ بھی ظلم وبرائی کے خلاف جدوجہد کرے گا اور اگر اس کو طاقت و قوت میسر نہیں ہوگی تو مجبورا دل میں اس ظلم وبرائی کے خلاف نفرت وعداوت رکھنے پر اکتفا کرلے گا) پس یہ وہ شخص ہوگا جو کمال ایمان، ثواب اور دنیا وآخرت کی سعادتوں تک پہلے پہنچے گا اور ایک شخص وہ ہوگا جو اللہ کے دین کو سمجھے گا (مگر پہلے شخص سے ایک درجہ کم) چنانچہ وہ شخص دین کی تصدیق کرے گا اور اس کو اچھا جانے گا (یعنی وہ شخص ظلم وبرائی کے خلاف صرف دل اور زبان کے ذریعہ جہاد کرے گا، ہاتھ کی قوت سے کام نہٰ لے گا، یہ مطلب اس قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے بارہ میں تصدیق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ تصدیق کا تعلق دل سے ہوتا ہے جس کی ترجمانی زبان کرتی ہے) اور ایک شخص وہ ہوگا جو اللہ کے دین کو (تھوڑا) بہت سمجھے گا چنانچہ وہ شخص سکونت اختیار کرے گا (اور صرف قلب کے ذریعہ جہاد کرے گا یعنی ظلم وبرائی کو محض دل سے برا سمجھنے پر اکتفا کرے گا) چنانچہ اس شخص کی حالت یہ ہوگی کہ وہ جب کسی کو نیک کام کرتے دیکھے تو اس کو دوست رکھے گا اور کسی کو غلط کام کرتے دیکھے گا تو اس سے نفرت کرے گا اور وہ شخص بھی پوشیدہ طور پر نیکی بھلائی کے تئیں محبت اور گناہ وبرائی کے تئیں نفرت رکھنے کے سبب نجات پائے گا " ۔

تشریح :
اس ارشاد گرامی کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طرف تو اس زمانہ کے بارے میں پیشگوئی فرمائی ہے جب امت مرحومہ پر ظالم اور بدکار حکمرانوں کی حکومت ہو اور ان سخت حالات سے نجات کی راہ کو بھی واضح فرمادیا گیا ہے اور وہ راہ ہے اللہ کے دین کا علم حاصل کرنا یقین ومعرفت اور عزم واستقامت اختیار کرنا، بھلائی کو پھیلانا اور برائی کو ختم کرنے کی جدوجہد کرنا، چنانچہ اس راہ کو اختیار کرنے والے لوگوں کو تین قسموں میں بیان فرمایا گیا ہے، پہلی قسم تو گویا ان لوگوں کی ہوئی جو اللہ کے دین کو پوری طرح جانیں گے اور سمجھیں گے اور دین کے بارے میں نہایت سختی اور پختگی کا رویہ اختیار کریں گے، ایسے لوگ نہ صرف برائی کو دل سے برا جانیں گے اور زبان کے ذریعہ تلقین ونصیحت کا فریضہ انجام دیں گے بلکہ طاقت وقوت میسر ہونے پر ہاتھ کے ذریعہ بھی جہاد کریں گے اور ظلم وبرائی کو مٹانے کے لئے کماحقہ جدوجہد کریں گے، دوسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو دین کو جاننے اور سمجھنے اور معرفت ویقین کے مرتبہ کے اعتبار سے پہلی قسم کے لوگوں سے کچھ کم تر ہوں گے ایسے لوگ بھلائی کو پھیلانے اور برائی کو ختم کرنے کے لئے محض زبان اور دل کو ذریعہ بنانے پر اکتفا کریں گے اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہوں گے جو دین کا علم بہت معمولی سا رکھیں گے اور برائیوں کے خلاف زبان کو بھی خاموش رکھیں گے اور خلاف شرع امور کو صرف دل میں برا سمجھنے پر اکتفا کریں گے بلکہ وہ قلبی نفرت وعداوت کے معاملہ میں بھی اس قدر سخت اور حساس نہیں ہوں گے جتنا ان کے ایمان کا تقاضا ہوگا ، اسی لئے ان لوگوں کو ایک دوسری حدیث کے الفاظ، ذالک اضعف الایمان، کے ذریعہ سب سے کمزور ایمان کا حامل بتایا گیا ہے۔ مذکورہ بالا تین قسمیں ان لوگوں کی ہیں جن کو عارف اور دیندار کہا جاسکتا ہے البتہ ان قسموں کے لوگ اپنے اپنے مرتبہ اور اپنی اپنی حیثیت کے اعتبار سے ایک دوسرے پر فضیلت وبرتری رکھتے ہیں اور ان کے درجات میں تفاوت ہے، چنانچہ قرآن کریم کی ایک آیت کی روشنی میں ان کے درجات کو اس طرح متعین کیا گیا ہے کہ پہلی قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو " سابق" دوسری قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو " مقتصد" یعنی متوسط اور تیسری قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو" ظالم" سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ آیت یہ ہے۔ (ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِه وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَ يْرٰتِ ) 35۔فاطر : 32)" پھر یہ کتاب ہم نے ان لوگوں کے ہاتھ میں پہنچائی جن کو ہم نے اپنے تمام دنیا کے بندوں میں سے پسند فرمایا پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر طلم کرنے والے ہیں اور بعض ان میں سے نیکیوں کے ساتھ آگے نکل جانے والے ہیں" ۔
واضح رہے کہ تیسری قسم سے تعلق رکھنے والے شخص کو " ظالم" اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ وہ دین کی زیادہ معرفت نہ رکھنے اور دین کے تئیں زیادہ محتاط وحساس نہ ہونے کی وجہ سے تقصیرات اور لغزشوں کا شکار ہوجاتا ہے اور اس طرح اپنی تقصیرات کے ذریعہ گویا اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے، نیز مزکورہ آیت کے ابتدائی الفاظ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان تینوں قسموں کے لوگ اگرچہ اپنے مراتب ودرجات میں تفاوت رکھتے ہیں مگر ایک بات میں سب کے سب مشترک ہیں کہ ان سب کو بارگاہ رب العزت میں برگزیدہ بندہ قرار دیا گیا ہے۔
لفظ " سوابق" اصل میں سابق کی جمع ہے اور سابقہ اس خصلت کو کہتے ہیں جو اولیت اور امتیازی حیثیت رکھتی ہو، جیسا کہ کہا جاتا ہے، لہ سابقۃ فی ہذا الامر یعنی اس کو اس معاملہ میں اولیت حاصل ہے، یا وہ شخص اس معاملہ میں لوگوں پر سبقت لے گیا ہے، لہٰذا حدیث کے اس جملہ وذالک الذی سبقت لہ اسوابق کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ شخص سابقین بالخیرات میں سے ہوگا بایں طور کہ وہ دین ودنیا کی سعادتوں، اجروثواب کی بشارتوں اور طاعات وعبادات کی توفیق کے حصول میں دوسرے لوگوں پر سبقت لے جائے گا۔ گویا اس جملہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد السابقون السابقون کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کمال وتکمیل کے مراتب، علم وعمل کے درجات اور تعلیم وتعلم کی خصوصیات کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے اور اس اعتبار سے ان کے حق میں یہ بشارت ہے کہ اولئک المقربون یعنی یہ ہی لوگ بارگاہ الٰہی میں مقرب ومقبول ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں