مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1167

اپنی اقتصادی حالت کا مواز نہاس شخص سے کرو جو تم سے بھی کمتر درجہ کا ہے

راوی:

وعنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا نظر أحدكم إلى من فضل عليه في المال والخلق فلينظر إلى من هو أسفل منه متفق عليه . وفي رواية لمسلم قال انظروا إلى من هو أسفل منكم ولا تنظروا إلى من هو قوقكم فهو أجدر أن لا تزدروا نعمة الله عليكم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " تم میں جو شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو اس سے زیادہ مالدار اور اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو (اور اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر رنج و حسرت ہو، اللہ کا شکر ادا کرنے میں سستی و کوتاہی واقع ہوتی ہو اور اس آدمی کے تئیں رشک و حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہوں) تو اس کو چاہئے کہ وہ اس آدمی پر نظر ڈال لے جو اس سے کمتر درجہ کا ہے (تاکہ اس کو دیکھ کر اپنی حالت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور نعمت عطا کرنے والے پروردگار سے خوش ہو" ۔ (بخاری

تشریح
معاشرہ کے افراد کو دنیاوی مال و متاع اور جاہ و حشمت کے تئیں باہمی بغض و حسد، رشک و حسرت اور بددلی و مایوسی سے بچانے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑا نفسیاتی طریقہ تجویز فرمایا ہے۔ یہ انسان کی جبلت ہے کہ جب وہ کسی شخص کو اپنے سے زیادہ مالدار اور اپنے سے زیادہ اچھی حیثیت و حالت میں دیکھتا ہے تو یا اس کے اندر اس طرح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو اس کو بد دل و مایوس، رنج خور و حسرت زدہ اور تقدیر الٰہی کا شاکی بتا دیتے ہیں یا پھر اس کے اندر حسد و جلن ، اور ناروا مسابقت کا مادہ پیدا کر دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ جائز و ناجائز ہر طرح سے اپنے آپ کو اوپر لے جانے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح معاشرہ میں عجیب قسم کی " جنگ زرگری" اور نقصان دہ سماجی و معاشی دوڑ شروع ہو جاتی ہے، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صورت حال سے بچنے کے لئے مذکورہ بالا ہدایت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے کہ جو اس سے زیادہ مالدار ہو، اس سے زیادہ اچھی شکل و صورت کا ہو، اس سے زیادہ جاہ و حشمت رکھتا ہو اور اس سے زیادہ اچھے لباس اور زیادہ اچھے مکان میں رہتا ہو، نیز وہ اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ اس آدمی کو حاصل شدہ، یہ تمام دنیاوی خوبیاں دراصل آخرت کے اعتبار سے اس کے حق میں وبال کا درجہ رکھتی ہیں کہ وہ انہی چیزوں کی وجہ سے آخرت میں مواخذہ و عذاب کا مستوجب ہوگا تو اس شخص کو چاہئے کہ وہ اس آدمی کی طرف نظر کرے جو مال و منال و شکل و صورت اور دنیاوی حیثیت و عزت کے اعتبار سے اس سے کمتر درجہ کا ہے، لیکن اپنے عقیدہ و خیال اور گفتار و کردار کے اعتبار سے آخرت میں درجہ عالی کا مستحق ہے۔ اس حدیث کے بین السطور سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ معاشرہ میں اکثریت ایسے افراد کی ہوئی ہے جو اقتصادی و سماجی طور پر اعتدال کی حالت میں ہوتے ہیں یعنی نہ تو بہت زیادہ اونچے درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ بہت نیچے درجہ سے تعلق رکھتے ہیں (معروف اصطلاح میں ایسے لوگوں کو" درمیانہ طبقہ" کہا جاتا ہے) یہ اور بات ہے کہ وہ حالت اعتدال یکساں نوعیت نہ رکھتی ہو، بلکہ ایسا ہو کہ کوئی شخص کسی کی بہ نسبت معتدل حالت رکھتا ہو اور کوئی شخص کسی کی بہ نسبت۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے سے برتر کی طرف دیکھ کر اپنے سے کمتر کی طرف نظر ڈالی وہ یقینا اچھی حالت کا حامل ہوگا۔
اس حدیث میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ بفرض محال کوئی شخص ہر حیثیت اور ہر اعتبار سے اپنے معاشرہ کے تمام ہی لوگوں پر فضیلت و برتری رکھتا ہو تو اس کے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ وہ ان لوگوں کی طرف دیکھے جو اس سے کمتر درجہ کے حامل ہیں، کیونکہ اس صورت میں بعید نہیں کہ اس کے اندر عجب و غرور اور اظہار فخر کا مادہ پیدا ہو جائے لہٰذا اس پر واجب یہ ہوگا کہ وہ جس اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہے اور اپنی فضیلت و برتری کو اپنے بلند کردار کے ذریعہ تواضع و انکساری اور خدمت خلق کا ذریعہ بنا لے نیز جو شخص ایسا ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس سے زیادہ مفلس و قلاش اور اس سے زیادہ غریب و نادار نہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرے کہ اس نے مجھے دنیا کے وبال میں مبتلا نہیں کیا اور دنیا داری کے بکھیڑوں اور اس کے غم و فکر سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ حضرت شبلی رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب کسی دنیا دار کو دیکھتے تو (اس کے وبال کے خوف سے ) بیساختہ ان کی زبان سے نکلتا۔ " اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عفو عافیت کا طلب گار ہوں"
غربت و افلاس کی تنگی و سختی اور فقر و فاقہ کی صعوبتیں حقیقت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اس کا اندازہ اس حکایت سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک دن ایک بہت بزرگ و ولی اور عارف باللہ اپنی مجلس میں حاضرین کو وعظ و نصیحت سے مستفید فرما رہے تھے کہ ایک نہایت مفلس و نادار شخص کھڑا ہوا اور شکوہ کرنے لگا کہ حضرت! میں نے اتنے طویل عرصہ سے نہ تو کسی کے سامنے اور نہ کسی سے چھپ کر کچھ کھایا پیا ہے اور نہایت اخلاص اور کمال استقامت کے ساتھ شدت بھوک کی صعوبتوں کو برداشت کر رہا ہوں۔ ان بزرگ نے فرمایا ۔ " ارے دشمن خدا! تو کتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے؟ تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ شدت بھوک کی صعوبت میں اپنے انہی بندوں کو مبتلا کرتا ہے جو اس کے رسول، نبی اور ولی ہوتے ہیں اگر تو ایسے ہی بندگان اللہ میں سے ہوتا تو اس پوشیدہ راز کو ہرگز ظاہر نہ کرتا اور اللہ کی اس نعمت کو لوگوں سے چھپاتا ۔"
ان ساری باتوں کا ماحصل یہ ہے کہ مومن کو جب سلامتی طبع اور حسن استقلال کی دولت مل جاتی ہے اور اس کا دین ہر طرح کے نقصان و خلل سے محفوظ ہوتا ہے تو پھر وہ نہ مال و متاع کی پرواہ کرتا ہے اور نہ جاہ و حشمت سے محرومی اس کو ملول کرتی ہے نیز زمانہ حال یا مستقبل میں اس کو جن مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے وہ ان کو اللہ کی طرف سے ایک ایسی نعمت سمجھ کر کہ جو اس کو آخرت کی سعاتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کرنے والی ہے، صبر و رضا اور شکر و اطمینان کے ساتھ برداشت کرتا ہے۔ منقول ہے کہ امام غزالی کے ایک مرید کو کسی نے مارا پیٹا اور قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا تو اس نے امام غزالی سے شکایت کی، انہوں نے فرمایا عزیزمن! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو بس اتنے ہی میں ٹل گئی ورنہ بلا تو کبھی اس سے زیادہ تکلیف دہ صورت میں نازل ہوتی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہی مرید کچھ دوسرے لوگوں کے چکر میں پھنس گیا جنہوں نے اس کو ایک کنوئیں میں بند کر دیا۔ جب وہ کسی طرح سے نجات پا کر حضرت امام موصوف کی خدمت میں پہنچا اور ان سے اس حادثہ کی شکایت کی تو انہوں نے وہی جواب دیا جو پہلے دیا تھا، پھر اتفاق کی بات کہ کچھ عرصہ کے بعد ایک یہودی کے چنگل میں جا پھنسا ، اس یہودی نے یہ سلوک کیا کہ اس کو ایک زنجیر میں باندھ کر اپنے پاس ڈال لیا اور ہر لمحہ کوئی نہ کوئی ایذاء اس کو پہنچاتا رہا۔ اس مرتبہ اس شخص کو نہایت تکلیف و اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور بہت دل گرفتہ ہوا کہ کیا دنیا بھر کی مصیبتیں میرے ہی لئے رہ گئی ہیں، آخرکار جب اس یہودی سے بھی نجات پا کر امام غزالی کی خدمت میں پہنچا، اور جن مصائب سے دوچار ہوا تھا ان کی شکایت کی، تو حضرت امام موصوف نے پہلے کی طرح پھر صبر و شکر کی تلقین کی! اب بات چونکہ اس کی برداشت سے باہر ہو گئی تھی لہذا نہایت بیقراری کے عالم میں کہنے لگا کہ حضرت! اب تک جن اذیتوں اور تکلیفوں سے دوچار ہو چکا ہوں کیا ان سے بھی زیادہ سخت کوئی بلا باقی رہ گئی ہے؟ حضرت امام غزالی نے جواب دیا۔" ہاں! اس سے بھی سخت بلا ہے اور وہ یہ کہ (خدا نخواستہ) تمہاری گردن میں کفر کا طوق پڑ جائے۔ حاصل یہ کہ انسان کے لئے آلات اور بلاؤں کی کوئی حد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی آفت و بلا میں مبتلا ہو تو صرف یہ کہ اس کو اس آفت و بلا کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہئے بلکہ اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہئے کہ اس نے اس سے بھی سخت کسی آفت و مصیبت میں مبتلا نہیں کیا۔

یہ حدیث شیئر کریں