مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آرزو اور حرص کا بیان ۔ حدیث 1168

جنت میں فقراء کا داخلہ اغنیاء سے پہلے ہوگا

راوی:

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل الفقراء الجنة قبل الأغنياء بخمسمائة عام نصف يوم . رواه الترمذي

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔" فقراء جنت میں اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے جو آدھے دن کے برابر ہے" ۔ (رواہ البخاری)

تشریح
" آدھے دن" سے مراد قیامت کا آدھا دن ہے مطلب یہ ہے کہ وہ پانچ سو سال قیامت کے آدھے دن کے برابر ہوں گے۔ اور قیامت کے دن کی مدت طوالت، دنیاوی شب و روز کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (وان یوما عند ربک کا لف سنۃ مماتعدون) ، رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور جگہ یہ فرمایا ہے کہ آیت ( فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُه خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَ نَةٍ) 70۔ المعارج : 4) اور جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا ، تو جاننا چاہئے کہ پہلی آیت کہ جس سے قیامت کے دن کا ایک ہزار سال کے برابر ہونا ثابت ہوتا ہے) عمومیت کی حامل ہے۔ جب کہ یہ دوسری آیت (کہ جس سے قیامت کے دن کا پچاس ہزار سال کے برابر ہونا ثابت ہوتا ہے) ایک خاص نوعیت کی طرف اشارہ کرتی ہے! یعنی اصل بات تو یہی ہے کہ دنیاوی حساب کے اعتبار سے قیامت کا دن ایک ہزار سال کے برابر ہوگا اور اسی کو پہلی آیت کے ذریعہ واضح فرمایا گیا ہے ۔ لیکن وہ قیامت کے دن چونکہ سختیوں اور شدت کا دن ہوگا اور جو شخص دنیا میں دین و ہدایت سے جتنا دور ہوگا اس کو اس دن کی سختیار اسی قدر زیادہ محسوس ہوگی اس لئے کفار کے حق میں اس دن کی سختیاں اس قدر زیادہ ہوں گی کہ اپنی درازی و سختی کے اعتبار سے وہ دن ان کو پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا! یہ دوسری آیت یہی مفہوم بیان کرتی ہے کہ قیامت کا دن (اگرچہ ایک ہزار سال کے برابر ہوگا مگر سختیوں اور شدائد کی بنا پر) کفار کو وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا جیسا کہ مومنین اور نیک کاروں کے حق میں وہ دن گویا لپیٹ دیا جائے گا کہ ایک ہزار سال کے برابر اس دن کی طوالت ان کو ایک ساعت کے بقدر معلوم ہو گی۔ اس کی تائید اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔ آیت (فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ Ď فَذٰلِكَ يَوْمَى ِذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ Ḍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ 10 ) 74۔ المدثر : 8)
اس حدیث کے ضمن میں ایک اشکال یہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث بظاہر اس حدیث کے معارض ہے جو جنت میں فقراء کے پہلے داخل ہونے کی مدت کو چالیس سال ظاہر کرتی ہے؟ لہٰذا شارحین نے ان دونوں حدیثوں میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ بیان کیا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ پچھلی حدیث میں " اغنیاء سے" مراد " اغنیاء مہاجرین" ہوں (جیسا کہ اس حدیث کی تشریح میں بھی اس طرف اشارہ کیا جا چکا ہے) اس صورت میں اس حدیث کا مطلب یہ ہوگا کہ فقراء ان اغنیاء سے کہ ان کا تعلق مہاجر صحابہ سے ہے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے، جب یہاں اس حدیث میں اغنیاء سے مراد وہ اغنیاء ہیں جو مہاجرین میں سے ہوں گے۔ اس وضاحت سے دونوں حدیثوں کے درمیان کوئی تعارض و تضاد باقی نہیں رہتا۔ لیکن جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کے درمیان مذکورہ تعارض کو ختم کرنے کے لئے یہ وضاحت زیادہ مناسب و موزوں ہے کہ دونوں عدد، یعنی چالیس اور پانچ سو سے مراد تحدید نہیں ہے۔ بلکہ مطلقا اس زمانی فرق کو بیان کرنا مقصود ہے جو جنت میں داخل ہونے کے سلسلہ میں فقراء اور اغنیاء کے درمیان ہوگا۔ چنانچہ اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے کہ فقراء جنت میں اغنیاء سے پہلے جائیں گے از راہ تفنن کسی موقع پر تو چالیس سال فرمایا گیا ہے۔ اور کسی موقع پر پانچ سو سال کے الفاظ ذکر فرمائے گئے ہیں جب کہ مقصود دونوں کا ایک ہی ہے یا یہ کہ پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی یہی معلوم ہوا ہوگا کہ جنت میں فقراء کے اغنیاء سے پہلے جانے کی مدت چالیس سال ہوگی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وحی کے مطابق چالیس سال کا ذکر فرمایا: لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے فقراء کے حال پر خصوصی فضل فرماتے ہوئے اور ان کی مزید تسلی کے لئے یہ خبر دی کہ فقراء کو جنت میں اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے داخل کیا جائے گا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دوسری مرتبہ اس بات کا ذکر کیا تو اس میں پانچ سو سال کا ذکر فرمایا۔ یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کے مفہوم میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کا تعلق دراصل خود فقراء کی ذات و شخصیت کی غیر یکسانیت سے ہے یعنی ظاہر ہے کہ ہر غریب و نادار اور ہر فقیر مسلمان ایک ہی حالت نہیں رکھتا، بعض فقراء تو ایسے ہوتے ہیں جو صبر و رضا اور شکر کے درجہ کمال پر ہوتے ہیں اور بعض فقراء وہ ہیں جن میں صبر و رضا اور شکر کا مادہ کم ہوتا ہے لہٰذا " پانچ سو سال" والی حدیث کا تعلق اول الذکر فقراء سے اور چالیس سال والی حدیث کا تعلق موخر الذکر فقراء سے ۔ یہ تاویل زیادہ مناسب اور موزوں بھی ہے اور اس کی تائید جامع الاصول کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے جس میں ان دونوں حدیثوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ جس حدیث میں چالیس سال کا ذکر ہے اس کی مراد یہ ہے کہ دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کی خواہش رکھنے والا فقیر، حریص غنی سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوگا اور جس حدیث میں پانچ سو سال کا ذکر ہے اس کی مراد یہ ہے کہ دنیاوی لذتوں و نعمتوں سے بالکل بے نیاز اور زاہد فقیر دنیا دار غنی سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں