مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ کھانوں کے ابواب ۔ حدیث 117

چھری کانٹے سے کھانے کا مسئلہ

راوی:

وعن عمرو بن أمية أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يحتزمن كتف الشاة في يده فدعي إلى الصلاة فألقاها والسكين التي يحتز بها ثم قام فصلى ولم يتوضأ

اور حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری کا شانہ جو آپ کے ہاتھ میں تھا چھری سے کاٹتے تھے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اسی دوران ') نماز کے لئے بلایا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شانے کو اور اس چھری کو کہ جس سے وہ شانہ کاٹ رہے تھے وہیں چھوڑ کر کھڑے ہو گئے اور نماز ادا کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس وقت ) وضو نہیں کیا (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو سے تھے ۔" (بخاری ومسلم )

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھاتے وقت گوشت یا کھانے کی کوئی چیز کاٹ کاٹ کر کھانا جائز ہے ، بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو اور اگر وہ گوشت یا کوئی بھی چیز گلی ہوئی اور نرم ہو کہ اس کو چھری سے کاٹنے کی ضرورت نہ ہوتی ہو ، تو پھر چھری سے کاٹ کر کھانا مکروہ ہوگا ، کیونکہ اس طرح بلا ضرورت چھری کانٹے سے کھانا عجمیوں (یعنی غیر مسلموں کے ) تکلفات میں شمار کیا گیا ہے ، جیسا کہ دوسری فصل میں بیان ہوگا ۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ داعی حق (نماز کے لئے بلانے والے یا اذان ) کی آواز سن کر کھڑے ہو جانے اور نماز میں پہنچ جانا چاہئے اگرچہ کھانا سامنے رکھا ہوا ہو ، لیکن یہ اس صورت کا حکم ہے جب کہ کھانے کے ضائع ہو جانے کا اندیشہ نہ ہو اس کھانے کی طرف شدید احتیاج نہ ہو ، یعنی اتنی بھوک نہ ہو کہ اگر وہ کھانا کھائے بغیر اٹھ کر نماز کے لئے چلا گیا تو نماز میں جی نہ لگے اور اس بات کا خوف نہ ہو کہ نماز سے واپس آنے کے بعد پھر کھانا نہیں ملے گا ۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنا ضروری نہیں ہوتا جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے کہ ان کے نزدیک آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں