مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 17

جانوروں کو کسی ضرورت ومصلحت کی وجہ سے داغنا جائز ہے

راوی:

وعن أنس قال : غدوت إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم بعبد الله بن أبي طلحة ليحنكه فوافيته في يده الميسم يسم إبل الصدقة

" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں ( ایک دن ) صبح کے وقت عبداللہ بن ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور چبا کر اس کے تالو میں لگا دیں ، چنانچہ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں داغنے کا آلہ تھا جس کے ذریعہ زکوۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے ۔ ( بخاری ومسلم )

تشریح
عبداللہ بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ماں کی طرف سے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی تھے " یعنی ماں کی طرف سے حقیقی بھائی تھے اور باپ کی طرف سے سوتیلے بھائی تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں کے دوسرے خاوند تھے جن سے عبداللہ پیدا ہوئے تھے کھجور چبا کر اس کا لعاب بچے کے تالو میں لگانا سنت ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان اونٹوں کو داغنا کسی خلجان کا باعث نہیں بننا چاہئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ کے علاوہ جسم کے دوسرے حصوں پر داغ دے رہے تھے اور داغنے کی جو ممانعت منقول ہے اس کا تعلق خاص طور پر منہ سے ہے ، یا بلا ضرورت داغنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جب کہ زکوۃ کے اونٹوں کو اس ضرورت کے تحت داغا جا رہا تھا کہ ان کے اور دوسرے اونٹوں کے درمیان فرق و امتیاز کیا جا سکے ۔

یہ حدیث شیئر کریں