مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ شکار کا بیان ۔ حدیث 16

منہ پر مارنے یا منہ کو داغنے کی ممانعت

راوی:

وعنه أن النبي صلى الله عليه و سلم مر عليه حمار وقد وسم في وجهه قال : " لعن الله الذي وسمه " . رواه مسلم

" اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے ایک گدھا گزرا جس پر داغ دیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس کو دیکھ کر ) فرمایا کہ " اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے ۔ " ( مسلم )

تشریح
اگر یہاں یہ سوال پیدا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گدھے کے منہ پر داغ دینے والے پر لعنت فرمائی حالانکہ مسلمانوں پر لعنت کرنے سے منع کیا گیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ ہو سکتا ہے کہ داغنے والا مسلمان نہ رہا ہو یا منافقین میں سے ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لعنت کرنا بد دعا کے طور پر نہ ہو بلکہ " اخبار بالغیب " کے طور پر ہو یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کے ذریعہ گویا یہ خبر دی کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں لعنت کا مستوجب قرار پا گیا ہے ۔
جاننا چاہئے کہ کسی بھی جاندار کے منہ پر داغ دینا متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک ممنوع ہے ، خواہ آدمی ہو یا کوئی بھی جانور و حیوان ! جانور کے منہ کے علاوہ اس کے جسم کے کسی اور حصہ پر داغ دینے کا مسئلہ یہ ہے کہ امتیاز و تعین کے مقصد سے زکوۃ اور جزیہ کے جانوروں کو داغنے کو تو بعض علماء نے مستحب کہا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کو داغنا بھی محض جائز ہے ۔
جہاں تک آدمیوں پر داغ دینے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وغیرہ کے مختلف اخبار و آثار قولا اور فعلا منقول ہیں ۔ بعض اقوال اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی اچھا فعل نہیں ہے ، بعض اقوال مدح ترک پر دلالت کرتے ہیں اور بعض اقوال صریح ممانعت کو ثابت کرتے ہیں ، جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل جواز پر دلالت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طبیب کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا جس نے ان کی فصد کھولی اور داغا ، نیز حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر داغ دینے کی اجازت دی ، بلکہ جب ورم ہوا تو ان پر اور داغ دیا گیا ، نیز حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوذرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم پر داغ دیا جانا بھی منقول ہے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ جن اقوال میں انسانی جسم کو داغنے کی ممانعت مذکور ہے ان کا تعلق قصدا بلا ضرورت و امتیاج داغنے سے ہے ، ہاں اگر کسی مرض وغیرہ کے سلسلے میں داغ دینے کی ضرورت ہو تو جائز ہے ۔
علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ( علاج کی نیت سے ) انسانی جسم کے کسی حصہ کو داغنا ، اسباب و ہمیہ میں سے ہے کہ اس کو اختیار کرنا جذبہ توکل و اعتماد علی اللہ کے اعتبار سے مناسب نہیں ہے جب کہ دوسرے علاج اسباب طنیہ میں سے ہونے کی وجہ سے توکل کے قطعا منافی نہیں ہیں ، ہاں اگر اس بات کا ظن غالب ہو کہ داغنا ، مرض کے دفعیہ کے لئے ایک سود مند علاج ہو گا تو اس صورت میں اس کو اختیار کرنا غیر مناسب نہیں ہو گا ۔ چنانچہ اہل فتویٰ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے کہ داغنا بذاتہ مکروہ تحریمی ہے مگر ظن غالب حاصل ہونے کی صورت میں بایں طور کہ طبیب حاذق یہ کہہ دے کہ مرض کے دفعیہ کا انحصار صرف داغنے پر ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی دوسرا علاج نہیں ہے تو داغنا مکروہ تحریمی نہیں ہو گا ۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ داغنے کی ممانعت اس بنیاد پر ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اس بات کا پختہ عقیدہ رکھتے تھے کہ داغنا مرض کے دفعیہ کے لئے ایک قطعی اور یقینی علاج ہے ، ظاہر ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ ایک باطل عقیدہ تھا ۔ اس لئے مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا تاکہ وہ اس کو اختیار کرنے سے شرک خفی کے جال میں نہ پھنس جائیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں