مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 975

کسی شخص کی بے آبروئی کرنے والے کے بارے میں وعید

راوی:

وعن المستورد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أكل برجل مسلم أكلة فإن الله يطعمه مثلها من جهنم ومن كسا ثوبا برجل مسلم فإن الله يكسوه مثله من جهنم ومن قام برجل مقام سمعة ورياء فإن الله يقوم له مقام سمعة ورياء يوم القيامة . رواه أبو داود

" اور حضرت مستورد رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص کسی مسلمان کی غیبت، برائی کرنے یا اس پر زنا وغیرہ کی تہمت لگانے کے ذریعہ اس کی آبروریزی کر کے ایک لقمہ کھائے تو اللہ اس کو اس لقمہ کی مانند دوزخ کی آگ کھلائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی تحقیر و امانت کے بدلہ میں کسی کو کپڑا پہنائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کپڑے کی مانند دوزخ کی آگ کا کپڑا پہنائے گا اور جو شخص کسی کو سنانے اور دکھانے کے لئے کھڑا کرے تو قیامت کے دن اللہ اس کے سنانے اور دکھانے کے لے خود کھڑا ہوگا۔ (ابوداؤد)

تشریح
لفظ اکلہ کے معنی ایک لقمہ کے ہیں اور ایک نسخہ میں یہ لفظ اکلۃ الف کے زبر کے ساتھ منقول ہے جس کے معنی ایک بار سیر ہو کر کھانا ہے ۔ کسی مسلمان کی آبروریزی کر کے ایک لقمہ ایک بار کھانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی خوشنودی مزاج کے لئے اس کے سامنے کسی مسلمان کی برائی کرنا اور اس کے عوض کچھ کھانے پینے کا سامان پیدا کر لینا ہے مثلا فرض کریں ایک شخص زید ہے جو کسی مسلمان سے عداوت رکھتا ہے اور اس مسلمان کی برائی سن کر بہت خوش ہوتا ہے چنانچہ ایک اور شخص بکر اس کے اس مزاج کو جان کر اس کے پاس جاتا ہے اور از راہ خوشامد اس کے سامنے اس مسلمان کو برا بھلا کہتا ہے یا اس کے عیوب کو بیان کرتا ہے اور زید اس کی اس حرکت سے خوش ہو کر اس کو روپیہ پیسہ یا کچھ کھانے کے لئے دیدیتا ہے تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی آبروریزی کو اپنی کمائی کا ذریعہ بناتا ہے تو آخرت میں اس کو اپنی روزی اور کمائی کے مثل دوزخ کی آگ کھانی پڑے گی۔
لفظ " کسی" بصیغہ معروف ہے اور اوپر کے ترجمہ اسی اعتبار سے کیا گیا ہے لیکن ایک نسخہ میں یہ لفظ بصیغہ مفعول ہے اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ جو شخص کسی مسلمان کی تحقیر و اہانت کرتا ہے اور اس کے بدلے میں کپڑا پہنایا جائے یہ معنی قبل کی عبارت کی زیادہ مطابق ہیں ۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس لفظ کے بصیغہ معروف ہونے کی صورت میں قبل کی عبارت میں من اکل برجل مسلم اکلہ دیکھتے ہوئے ترجمہ یوں ہوگا جو شخص کسی مسلمان کی تحقیر و اہانت کرنے کے بدلے میں اپنے آپ کو کپڑے پہنائے۔
ومن قام برجل " کے لفظ برجل میں حرف باء تعدیہ کے لئے اور رجل سے مراد خود وہی شخص ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص بھی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نمود و نمائش کی خاطر اپنی زبان سے اپنی بڑائیاں بیان کرے اور اپنی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہو یا کسی دوسرے شخص کو اسبات پر مامور کرے کہ وہ لوگوں کی بڑائی جتانے کے لئے اور دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے اس کی تعریف کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی برائیاں ظاہر کر کے لوگوں کے درمیان اس کی رسوائی کا سامان پیدا کرے گا۔ بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ برجل میں حرف باء تعدیہ کے لئے بھی ہو سکتا ہے اور سببیت کے لئے بھی ۔ پس اگر تعدیہ کے لئے ہو تو یہ مطلب ہوگا کہ جو شخص کسی کو سمعہ وریاء نمود و نمائش کے طور پر اس کی پرہیزگاری دینداری کا ڈنکا پیٹتا پھرے اور اس کے زہد عبادات اور اس کی بزرگی کو جھوٹ کی شہرت دے اور اس سے مقصد یہ ہو کہ لوگ اس کے معتقد ہوں اور اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہو کر اپنے جان و دل کے ذریعہ اس کی خدمت کیا کریں۔ اور اس کی آڑ میں اپنا جاہ و مال کا فائدہ ہو جیسا کہ بعض بزرگان کے خدام کا شیوہ ہے وہ ان کی شہرت کی آڑ میں اپنے لئے مختلف فوائد حاصل کرتے ہیں اور بقول شخصے "پیراں نمی پرند مریدان میں پرانند"۔ تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ قیامت کے دن اس شخص کو رسوائی کی جگہ پر کھڑا کرے گا یعنی فرشتوں کو حکم دے گا کہ اس شخص کے بارے میں اعلان کرو کہ یہ جھوٹا ہے اس نے محض اپنے فائدہ اور ذاتی اغراض کے لئے ایک شخص کو ناروا طور پر شہرت دی اس کے بعد اس کو عذاب میں مبتلا کر دیا جائے گا جو جھوٹوں کے لئے ہوگا۔
اور اگر حرف باء سببیت کے لئے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص کسی کی توجہ حاصل کرنے کے لئے خود اپنے آپ کو سمعہ وریا کے مقام پر کھڑا کرے یعنی اپنے آپ کو بڑا زاہد متقی اور نہایت صالح و پاکباز ظاہر کرے تاکہ کوئی صاحب جاہ و مال دار شخص اس کا معتقد ہو اور وہ اس کے ذریعہ جاہ و مال کی اپنی خواہش و طلب کو پورا کرے تو ایسے شخص کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ اس کو ایسی جگہ پر کھڑا کرے گا جہاں لوگ اس کی رسوائی و فصیحت کو دیکھیں گے یعنی فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ یہ اعلان کرو کہ یہ شخص نہایت ریا کار تھا اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے اور اس کے ذریعہ جاہ و مال حاصل کرنے کے لئے خود کو زاہد متقی ظاہر کرتا تھا اور پھر اس کے بعد اس کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا جو ریا کاروں کے لئے ہوگا۔

یہ حدیث شیئر کریں