مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ معاملات میں احتراز اور توقف کرنے کا بیان ۔ حدیث 976

خدا کے ساتھ حسن ظن کی فضیلت

راوی:

وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حسن الظن من حسن العبادة . رواه أحمد وأبو داود

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اچھا گمان رکھنا من جملہ بہترین عبادات کے ہے۔ (احمد، ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جن اعمال کو عبادات حسنہ کہا جاتا ہے ان میں سے ایک بہترین چیز اور بہترین عبادت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھا جائے لہذا ضروری ہے کہ عبادتوں کو ترک نہ کیا جائے واضح رہے کہ جاہل عوام یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ کے ساتھ حسن ظن کا مطلب یہ ہے کہ اگر عبادتیں ترک ہوتی ہیں تو ہونے دو۔ البتہ اللہ کی ذات پر اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ کریم اور غفور ہے جو تارک عبادت کو بھی یقینا بخش دے گا یہ گمان نہایت گمراہی کا سبب ہے اور شیطان کے فریب میں پھنس جانے کا نتیجہ ہے علماء نے لکھا ہے کہ جو شخص عبادتوں کو ترک کرے اور معبود کے ساتھ حسن ظن کا دعوی کرے وہ یقینا مغرور و مردود ہے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اچھے گمان کا تعلق اللہ کے بجائے مسلمانوں کے بارے میں خیر و صلاح کا عقیدہ رکھنا من جملہ عبادات حسنہ کے ہے۔ یا یہ کہ یہ ایک ایسی صفت ہے جو عبادتوں میں حسن و کمال پیدا کرتی ہے اور ثواب کا درجہ بڑھاتی ہے اس کا حاصل یہ نکلا کہ جو شخص عبادات گزار و نیکوکار ہوتا ہے وہ دوسروں کے بارے میں ہمیشہ اچھا گمان اور نیک خیال رکھتا ہے اور بد گمانی رکھنے والا بدکار کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
بدگماں باشد ہمیشہ زشت کار نامہ خود خواند اندر حق یار

یہ حدیث شیئر کریں