مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حشر کا بیان ۔ حدیث 114

اہل جنت کی سب سے بڑی تعداد امت محمدی پر مشتمل ہوگی

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري عن النبي صلى الله عليه وسلم قال يقول الله تعالى يا آدم فيقول لبيك وسعديك والخير كله في يديك . قال أخرج بعث النار . قال وما بعث النار ؟ قال من كل ألف تسعمائة وتسعة وتسعين فعنده يشيب الصغير ( وتضع كل ذات حمل حملها وترى الناس سكارى وما هم بسكارى ولكن عذاب الله شديد )
. قالوا يا رسول الله وأينا ذلك الواحد ؟ قال أبشروا فإن منكم رجلا ومن يأجوج ومأجوج ألف ثم قال والذي نفسي بيده أرجو أن تكونوا ربع أهل الجنة فكبرنا . فقال أرجو أن تكونوا ثلث أهل الجنة فكبرنا فقال أرجو أن تكونوا نصف أهل الجنة فكبرنا قال ما أنتم في الناس إلا كالشعرة السوداء في جلد ثور أبيض أو كشعرة بيضاء في جلد ثور أسود . متفق عليه . ( متفق عليه )

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔" (قیامت کے دن میدان حشر میں ) اللہ تعالیٰ آواز دے گا کہ اے آدم ! " آدم جواب دیں گے کہ میں حاضر ہوں تیری تابعداری کے لئے تیار ہوں ساری بھلائیاں تیرے ہی ہاتھوں میں ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا " آگ والوں کے لشکر کو نکال لو یعنی ہمیں تمہاری اولاد میں سے جن لوگو کو دوزخ میں بھیجنا منظور ہے ان کو علیحدہ کر لو ۔ " آدم عرض کریں گے کہ دوزخیوں کے لشکر کو نکال لو یعنی ہمیں تمہاری اولاد میں سے جن لوگوں کو دوزخ میں بھیجنا منظور ہے ان کو علیحدہ کر لو ۔ " آدم عرض کریں گے کہ دوزخیوں کے لشکر کی تعداد ( کا تناسب ) کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانویں ( یعنی دوزخیوں کا تناسب یہ ہے کہ ہر ہزار میں سے ایک آدمی جنت میں جائے گا اور باقی دوزخ میں ڈالے جائیں گے ) ! یہ حکم الٰہی سن کر چھوٹی عمر والا بوڑھا ہو جائے گا اور ہر حاملہ عورت اپنا حمل ضائع کر دے گی ۔ اور اس وقت ) تم دیکھو گے کہ لوگ گویا نشہ میں مست ہیں حالانکہ وہ ( شراب جیسے نشہ سے مست نہیں ہوں گے بلکہ عذاب الہٰی بہت سخت ہے ( یعنی لوگوں کی وہ سر مستی ومدہوشی ، عذاب الٰہی کے خوف ودہشت کی بناء پر ہوگی ) صحابہ کرام نے ( جب یہ سنا کہ جنت میں جائے گا ) ہم میں کون ہوگا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کو سمجھانے اور تسلی دینے کے لئے ) فرمایا اطمینان رکھو غم نہ کھاؤ ( جنت میں جانے والا ) ایک شخص تم میں سے ہوگا اور ( دوزخ میں جانے والے ہزار شخص یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں امید رکھتا ہوں کہ ( اے میری امت کے لوگو ) تم اہل جنت کی مجموعی تعداد میں جنت کے مستحق ہوں گے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ( اور بڑی بشارت دینے کے لئے ) فرمایا کہ میں امید رکھتا ہوں کہ تم اہل جنت کی مجموعی تعداد کا تہائی حصہ ہونگے ، ( یہ سن کر ) ہم نیے پھر نعرہ تکبیر بلند کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ۔ " ( تم لوگوں یعنی امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ایک عظیم فضیلت ہے کہ جنت میں جانے والوں میں سب سے بڑی تعداد اسی امت کی ہوگی جب کہ اس دنیا میں ) لوگوں کے درمیان تمہاری تعداد اتنی کم ہے جیسا کہ سفید بیل کے جسم پر ایک سیاہ تل یا ایک کالے بیل کے جسم پر ایک سفید بال ہو ۔ ' ' ( بخاری ومسلم )

تشریح :
" ہر ہزار میں سے نو سوننانویں ان الفاظ کے اعتبار سے یہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نقل کردہ اس حدیث کے مخالف ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر سو ننانویں لوگ دوزخی ہوں گے ؟ پس کرمانی نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ ان دونوں روایتوں میں کسی خاص عدد کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اصل مقصد اہل ایمان کی تعداد کے کم ہونے اور اہل کفر کی تعداد کے زیادہ ہونے کو بیان کرنا ہے ! پس یہاں ہر ہزار میں سے نوسوننانویں کا جو تناسب بیان کیا گیا ہے وہ کافروں کے اعتبار سے ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں " ہر سو میں سے ننانویں جو تناسب ذکر کیا گیا ہے وہ گنہگاروں کے اعتبار سے ہے ! اور ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ لکھا ہے کہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ حدیث کے مفہوم کو تو حضرت آدم علیہ السلام کی تمام ذریت پر محمول کیا جائے ( یعنی یہاں حدیث میں اہل دوزخ کے لئے ہر ہزار میں سے نو سو ننانویں کا جو تناسب ذکر کیا گیا ہے وہ از اول تا آخر تمام انسانوں کے اعتبار سے ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں اہل دوزخ کے لئے " ہر سو ننانوے " کا جو تناسب ذکر کیا گیا ہے اس کو یاجوج ماجوج کے علاوہ دوسرے لوگوں پر محمول کیا جائے اور اس کا قرینہ یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا ذکر حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی روایت میں ہے نہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں یا یہ کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا تعلق تمام مخلوق سے ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کا تعلق صرف امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے ! اور یا یہ کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں اہل دوزخ کے لشکر سے مراد تمام کفار اور تمام گنہگار ہیں جب کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں " اہل دوزخ کے لشکر " سے مراد صرف مسلمان گنہگار ہیں ! بہرحال ان تاویلات اور توجہیات سے ان دونوں روایتوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں رہتا ۔
اور ہر حاملہ اپنا حمل ضائع کر دیگی " کے بارے میں زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ بات فرض کرنے کے طور پر بیان کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر بالفرض اس وقت کوئی چھوٹی عمر کا ہو تو وہ اس صورت حال کی ہیبت اور اس فیصلہ الٰہی کے صدمہ وخوف سے بوڑھا ہو جائے اسی طرح اس وقت اگر کوئی عورت حمل سے ہو تو مارے ہیبت کے اس کا پیٹ گر پڑے اور بعض حضرات نے یہ احتمال بیان کیا ہے کہ جو عورتیں حمل کی حالت میں مری ہوں گی وہ اپنے حمل کے ساتھ اٹھ کر میدان حشر میں آئینگی اور اس وقت وہ حکم الٰہی سن کر مارے ہیبت کے ان کا حمل گر پڑے گا اسی طرح چھوٹی عمر والے اٹھ کر میدان حشر میں آئیں گے وہ مارے ہیبت کے بوڑھے ہو جائیں گے یہ اور بات ہے کہ وہ جنت میں جاتے وقت جوان ہو جائیں گے ۔
اطمینان رکھو غم نہ کھاؤ الخ کے ذریعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے خوف وخدشہ کو دور فرمایا کہ دراصل یاجوج وماجوج کی قوم کے لوگ اتنی کثرت میں ہوں گے کہ اگر تمہاری اور ان کی تعداد کا تناسب نکالا جائے تو وہ اس طرح ہوگا کہ ان میں سے تو ایک ہزار شخص اور تم میں سے صرف ایک شخص اور اس صورت حال میں بھی اہل جنت کی تعداد کچھ کم نہیں ہوگی بلکہ بہت ہوگی لہٰذا تمہیں اس خدشہ میں نہ پڑنا چاہئے کہ جنت میں جانے والوں کا تناسب دوزخ میں جانے والوں کے تناسب سے اس قدر کم ہوگا تو ہم میں سے بہت ہی کم لوگ جنت میں جائینگے ! تا ہم اس بات سے یہ ضرور واضح ہوگیا کہ مجموعی طور پر دوزخ میں جانے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی اور جنت میں جانے والوں کی تعداد کم ! لیکن اگر اہل جنت میں ملائکہ اور حوروں کو بھی شامل کر لیا جائے تو شاید اہل جنت کی تعداد ، اہل دوزخ کی تعداد سے زیادہ بڑھ جائے گی اور اس صورت میں حدیث قدسی غلبت رحمتی علی عضبی ( میری رحمت میرے غضب پر غالب ہوئی ) کے معنی بھی صحیح ہوں گے ۔
واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جنت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تناسب بیان فرمایا اس کو بتدریج ذکر فرمایا یکبارگی ذکر نہیں کیا تاکہ صحابہ کرام کے دل خوشی کے مارے پھٹ نہ جائیں ، یا بتدریج ذکر اس بنا پر فرمایا کہ شاید امت محمدی کے لوگ کئی مراحل میں اسی تاسب کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے یعنی پہلے مرحلہ میں جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا تہائی حصہ بنے گا یہاں تک کہ جب سب لوگ جنت میں پہنچ جائینگے تو پھر امت محمدی کے لوگ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا آدھا حصہ ہوں گے اور یا یہ کہ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر متعدد بار وحی نازل ہوئی اور مذکورہ تناسب کو اسی تدریج کے ساتھ بتایا گیا ، چنانچہ جب بھی وحی نازل ہوتی اور اس میں جس نناسب کا ذکر ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو بشارت دینے کے لئے اسی کو بیان فرما دیتے ! بہرحال یہ احتمالات مذکورہ تناسب کو بتدریج ذکر کرنے کے سلسلہ میں ہیں جو اصل بات ہے وہ یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگ اہل جنت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہوں گے حالانکہ زیادہ صحیح بات ہے کہ جنت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی ، چنانچہ یہ ثابت ہے کہ اہل جنت کی ایک سو بیس ١٢٠ صفیں ہوں گی ، جن میں سے ۸۰ (اسی) صفیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر مشتمل ہوں گی اور چالیس صفیں باقی تمام امتیوں کی ہوں گی ، پس ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حدیث ( کہ جس سے امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل جنت کی مجموعی تعداد کا نصف حصہ ہونا معلوم ہوتا ہے ) ارشاد فرمائی تھی اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم اہل جنت کی کل تعداد کا دو تہائی حصہ ہوگی ! اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " نصف حصہ " والی بات ابتدائی مرحلہ میں جنت میں جانے والوں کے تناسب کے اعتبار سے فرمائی ہو ۔

یہ حدیث شیئر کریں