مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 135

آسان حساب اور سخت حساب

راوی:

وعنها قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في بعض صلاته اللهم حاسبني حسابا يسيرا قلت يا نبي الله ما الحساب اليسير ؟ قال أن ينظر في كتابه فيتجاوز عنه إنه من نوقش الحساب يومئذ يا عائشة هلك . رواه أحمد .

" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض نماز میں یہ دعا مانگتے سنا کہ اللہم حاسبنی حسابا یسیرا اللہ! میرے اعمال کا آسان حساب لیجیو! ( حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ) میں ( یہ سنا تو ) عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آسان حساب کا کیا مطلب ہے اور اس کی کیا صورت ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " آسان حساب کی یہ صورت ہوگی کہ بندہ اپنے اعمال نامے کو دیکھ لے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمادے گا اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! حقیقت یہ کہ اس دن جس شخص کے حساب میں مناقشہ یعنی کاوش کی گئی تو ( بس سمجھ لو کہ ) وہ برباد ہوگیا ، یعنی وہ مستوجب عذاب ہونے سے بچ نہیں سکتا ۔ " ( احمد)

تشریح :
" بعض نماز " سے یا تو یہ مراد ہے کہ آپ نے یہ دعا بس نماز میں مانگی تھی ، وہ فرض نمازوں میں سے کوئی نماز تھی ، یا نوافل میں سے کوئی نفل نماز تھی اور یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا نماز کے کسی ایک حصہ یعنی ابتداء قیام میں ، یا رکوع میں ، یا قومے میں ، یا سجدے میں اور یا قعدے میں مانگی تھی ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ دعا مانگنا یا تو امت کی تعلیم کے لئے تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ سے آسان حساب کی دعا مانگا کریں تاکہ وہ اصل حساب کی سختیوں اور مواخذہ کی ہولناکی وشدت سے بچ جائیں اور ان پر اللہ کا فضل واحسان ہو جائے ، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا لوگوں کو خواب غفلت سے ہوشیار کرنے کے لئے مانگی ، کہ دیکھو چین واطمینان کی چادر تان کر مت سو جاؤ ، اس دن کا خیال کرو جب اپنے اعمال کے ساتھ خدائے جبار وقہار کی عدالت میں پیش ہونا ہے ، اگر وہاں سخت مواخذہ میں گرفتار ہوگئے تو پھر عدل خداونی کسی حال میں معاف نہیں کرے گا ، عذاب میں مبتلا ہو کر رہوگے ، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ابھی سے اپنے اعمال کی دنیا کو سنوار لو ، اتنا تو کر لو کہ کچھ منہ لے کر اس کی بارگاہ میں پیش ہو سکو اور اس کے فضل واحسان کے مستحق بن سکو ! اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوف الہٰی کا غلبہ ہوا ، احوال قیامت اور حساب کتاب کی ہولناکی کے خیال نے خشیت الٰہی اور خوف الہٰی سے دل وجان کو لرزاں کر دیا ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی ۔
" مناقشہ " کے معنی ہیں جانچ کر حساب لینا ، کوڑی کوڑی کا جھگڑا کرنا پس " حساب میں مناقشہ کرنا " یہ ہے ایک ایک عمل اور ہر عمل کے ایک ایک جزو کی پوری پوری چھان بین ہو ، ہر فعل کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہو اور رتی رتی کا حساب لیا جائے ظاہر ہے کہ اصل حساب یہی ہے اور اس حساب میں کوئی بھی بندہ پورا نہیں اتر سکتا ، جو بھی شخص اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے محروم رہا اور اس کو آسان حساب کے بجائے اس سخت حساب سے دوچار کیا گیا تو وہ عذاب میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
" بندہ اپنے اعمال نامے کو دیکھ لے گا الخ" یعنی جو بندے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے سائے میں ہوں گے ان کے ساتھ حساب کی صورت یہ ہوگی کہ ان کے سامنے ان کے اعمال نامے کھول ڈال دیئے جائیں گے اور اس کو دکھا دیا جائے گا کہ دیکھ تو نے یہ فلاں فلاں گناہ کا ارتکاب کیا بندہ ندامت وشرمندگی کے ساتھ گناہوں کا اعتراف واقرار کرے گا ۔ اور تب اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں سے درگزر فرما دے گا اور اس کو اپنی عنایت سے بخشش ومغفرت کا پروانہ عطا فرما دے گا اور اگر لفظ ینظر کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع کی جائے تو یہ بھی ہو سکتا ہے ، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اعمال نامے کو ایک نظر دیکھ لے گا اور پھر اس سے درگزر فرمادے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں