مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حساب قصاص اور میزان کا بیان ۔ حدیث 136

مؤمن پر قیامت کا دن آسان ہوگا

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال أخبرني من يقوى على القيام يوم القيامة الذي قال الله عز وجل ( يوم يقوم الناس لرب العالمين )
؟ فقال يخفف على المؤمن حتى يكون عليه كالصلاة المكتوبة .

" اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ( ایک دن ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ( یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے یہ تو بتائیے ، قیامت کے دن کہ جس کے بارے میں خدائے بزرگ وبرتر یہ فرماتا ہے (يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ) 83۔ المطففین : 6) ( جس دن کہ تمام لوگ ایک ایک جہان کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے ، کس شخص کو ( حساب کے لئے ) اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کی تاب ہوگی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کا دن مؤمن کے لئے آسان کر دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ دن اس پر فرض نماز ( کی ادائیگی کے وقت ) کے بقدر رہ جائے گے ۔ "

تشریح :
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے قرآن کے جن الفاظ کا حوالہ دیا ، وہ دراصل پارہ عم کی سورت متطففین ( ویل للمطففین ) کی ایک چھوٹی سی آیت ہے ، اس سورت میں قیامت کے دن کے احوال اور اس دن اعمال کی جزاء و سزا دیئے جانے کا ذکر ہے اور چونکھ وہ دن اللہ کے عدل وانصاف کے اظہار کا دن ہوگا اس مناسبت سے اس سورت میں خاص طور سے بعض ان اعمال پر وعید مذکورہ ہے جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں اور سماجی زندگی میں نہایت قابل نفرت سمجھتے ہیں جیسے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو ان الفاظ میں تہدید کی گئی ہے کہ الا یظن اولئک انہم مبعوثون لیوم عظیم یوم یقوم الناس لرب العلمین کیا ان لوگوں کو ( جو ناپ تول میں کمی کر کے حقوق العباد کو نقصان پہنچاتے ہیں ) اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے جس دن کہ تمام لوگ ایک ایک جہاں کے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوں گے ( پس اس دن سے ڈرنا چائیے اور ہر اس برائی سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے بندوں کے حقوق پر اثر پڑتا ہو ، جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہو اور جس سے سماجی زندگی باہمی اطمینان واعتماد سے محروم ہوتی ہو ، جیسے کم ناپنا اور کم تولنا ! منقول ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سورت کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت (يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ) 83۔ المطففین : 6) پر پہنچے تو خوف وخشیت الہٰی سے بے حال ہوگئے اور ان پر گریہ طاری ہوگیا اور پھر اس طرح روئے کہ اس کے بعد کی آیتوں کی تلاوت جاری رکھنے پر قادر نہیں ہوسکے ۔
بہر حال حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کا حاصل یہ تھا کہ ایک تو قیامت کا دن خود اپنے اندر ہول ودہشت اور خوف وپریشانی کے صد ہزار عالم لئے ہوگا ، اور اس پر اپنے اعمال کا کچا چٹھا لے کر خداوند ذوالجلال کی پرہیبت بارگاہ میں پیش ہوگا ، اس کے عدل وانصاف کی ہیبت اور اس کے لئے اس کی عدالت میں ، اس کی پر جلال بارگاہ میں کھڑا ہو سکے ؟ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت عطا فرمائی کہ مسلمانوں کو بہر حال اطمینان رکھنا چاہئے کہ وہ دن اپنی تمام ہولنا کیوں کے باوجود ان کے حق میں ایک آسان دن ہوگا وہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل وکرم کے سائے میں رہیں گے ، اس لئے قیامت کا وہ پورا دن بس اتنے عرصہ میں گزر جائے گا جتنے عرصہ میں کوئی شخص فرض نماز پڑ لیتا ہے پس اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ذہن میں رہنی چائے کہ " مسلمان " سے مراد کامل مسلمان ہے ، یعنی عقیدہ وفکر کے اعتبار سے پختہ وصالح ، اعمال وکردار کے اعتبار سے پاکباز ومتقی اور پروردگار کی اطاعت وعبادت میں کامل ! اسی طرح " فرض نماز کے بقدر " سے مراد وہ عرصہ ہے جس میں فرض نماز کہ جس کی نہایت چار رکعتیں ہیں ، ادا کی جاتی ہیں یا یہ کہ فرض نماز کا پورا وقت مراد ہے ، یعنی جتنی دیر تک ایک فرض نماز ادا کرنے کا وقت رہتا ہے ، اتنی دیر میں قیامت کا پورا دن گزر جائے گا رہی یہ بات کہ " مسلمانوں کے حق میں قیامت کے دن کا فرض نماز کی ادائیگی کے وقت کے بقدر ہونے " سے کیا یہ مراد ہے کہ ان کے حق میں قیامت کا دن واقعۃ اتنے مختصر سے عرصہ پر محیط ہوگا ، یا یہ مراد ہے کہ وہ دن ہوگا تو بہت زیادہ لمبا طویل لیکن مسلمانوں کو وہ اتنا بڑا دن بس ایسا محسوس ہوگا جیسے ایک فرض نماز کے وقت بقدر ہو کر گزر گیا ہو ؟ تو اس سلسلہ میں یہی دوسرا پہلو مراد ہے یعنی وہ دن اپنی اتنی طوالت اور اتنی شدت وسختیوں کے باوجود مسلمانوں کے لئے اتنا ہلکا بنا دیا جائے گا کہ ان کو وہ پورا دن ایک فرض نماز کے مختصر ترین عرصہ کے بقدر گزرتا ہوا معلوم ہوگا جب کہ کافروں کے حق میں اس کے برعکس ہوگا ، چنانچہ یہ تو اس دنیا میں بھی عام طور پر دیکھا جانا ہے کہ وقت اور مقدار کے اعتبار سے شب وروز کی گردش ہر شخص کے لئے یکساں ہوتی ہے لیکن جو لوگ عیش وراحت اور خوشحالی کے ساتھ ہوتے ہیں ان کے لئے چوبیس گھنٹوں کے وہی دن و رات لمحوں کے برابر گزرتے محسوس ہوتے ہیں جو مصائب وآلام اور پریشان حالی میں مبتلا لوگوں کے لئے سالوں کے برابر گزرتے معلوم ہوتے ہیں اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ قیامت کے دن کا مسلمانوں کے حق میں آسان وہلکا ہونا یکساں نوعیت نہیں رکھے گا بلکہ ہر مسلمان کے عقیدہ وعمل کے مراتب کے اعتبار سے الگ الگ نوعیت رکھے گا کہ جو شخص دنیا میں اپنے عقیدہ وعمل کے اعتبار سے زیادہ کامل رہا ہوگا وہ اس دن کو اور وہاں کے احوال کو اتنا ہی زیادہ آسان وہلکا مسحوس کرے گا اور دنیا میں جس شخص کا عقیدہ وعمل جتنا زیادہ کمزور رہا ہوگا وہ اس دن کو اتنا ہی کم آسان وہلکا محسوس کرے گا یہاں تک کہ کفار کو وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا ، چنانچہ قرآن کریم کے ان الفاظ میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
(تَعْرُجُ الْمَلٰ ى ِكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُه خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَ نَةٍ Ć فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا Ĉ اِنَّهُمْ يَرَوْنَه بَعِيْدًا Č )
70۔ المعارج : 6-5-4) " فرشتے اور ( اہل ایمان کی ) روحیں اس کے پاس ( علام بالا میں چڑھ کر جاتی ہیں ( اور وہ عذاب ) ایسے دن میں ہوگا جس کی مقدار دنیا کے ) پچاس ہزار سال کے برابر ) ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( اہل کفر کی مخالفت پر ) صبر کیجئے اور صبر بھی ایسا جس میں شکایت کا نام نہ ہو یہ لوگ ( یعنی اہل کفر ) اس دن کو ( بد عقیدگی کی وجہ سے بعد ازو قوع دیکھ رہے ہیں اور ہم اس کو ( وقوع سے) قریب دیکھ رہے ہیں ۔"
چنانچہ اس آیت میں " اس دن " سے مراد قیامت کا دن ہے جو اپنی درازی اور سختی کے اعتبار سے کفر کو اتنا لمبا معلوم ہوگا اور جس طرح ایمان کے مراتب میں تفاوت ہونے کی وجہ سے وہ ان اہل ایمان میں سے کچھ کو بہت آسان اور ہلکا معلوم ہوگا اور کچھ کو کم آسان اور ہلکا معلوم ہوگا ، اسی اعتبار سے ایک آیت میں اس دن کو ایک ہزار سال کے برابر فرمایا گیا ہے پس بعض کافروں کو ہزار سال کے برابر اور بعض کافروں کو پچاس ہزار سال کے برابر معلوم ہوگا ۔
(فَاِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُوْرِ Ď فَذٰلِكَ يَوْمَى ِذٍ يَّوْمٌ عَسِيْرٌ Ḍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ غَيْرُ يَسِيْرٍ 10 ) 74۔ المدثر : 10-9-8)
" پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا سو وہ وقت ( یعنی وہ دن کافروں پر ایک سخت دن ہوگا جس میں ذرا آسانی نہ ہوگی ۔ "
دوسرے لفظوں میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اہل ایمان پر وہ دن بہت ہلکا اور آسان ہوگا اور وہ ہلکا وآسان ہونا ان کے ایمان وعمل کے اعتبار سے تفاوت رکھے گا ۔ بہر حال اس حدیث میں مسلمانوں کے لئے واضح طور پر یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ قیامت کے دن کو اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ آسان وہلکا اور جلد گزر جانے والا بنانا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان وعقیدہ کو زیادہ سے زیادہ پختہ بنائیں اور اپنی عملی زندگی کو زیادہ سے زیادہ طاعت وعبادت اور رضاء الہٰی کے کاموں سے مامور کریں ۔

یہ حدیث شیئر کریں