مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 273

ایک نبی کو دوسرے نبی کے مقابلہ پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی ممانعت :

راوی:

وعنه قال : استب رجل من المسلمين ورجل من اليهود . فقال المسلم : والذي اصطفى محمدا على العالمين . فقال اليهودي : والذي اصطفى موسى على العالمين . فرفع المسلم يده عند ذلك فلطم وجه اليهودي فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبره بما كان من أمره وأمر المسلم فدعا النبي صلى الله عليه و سلم المسلم فسأله عن ذلك فأخبره فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " لا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأصعق معهم فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري كان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان فيمن استثنى الله . " . وفي رواية : " فلا أدري أحوسب بصعقة يوم الطور أو بعث قبلي ؟ ولا أقول : إن أحدا أفضل من يونس بن متى "

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (کسی موقع پر ایک مسلمان اور ایک یہودی کے درمیان بدکلامی ہوئی، مسلمان نے کہا اللہ کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو سارے جہان کے لوگوں میں سے بہتر قرار دیا، اس کے جواب میں یہودی نے یہ کہا کہ اس اللہ کی قسم جس نے موسی علیہ السلام کو جہاں کے لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا اس پر مسلمان نے (طیش میں آکر) یہودی پر ہاتھ اٹھا دیا اور اس کے گال پر طمانچہ مارا یہودی (شکایت لے کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا اور اس مسلمان کا پورا واقعہ رکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو طلب فرمایا اور اس سے صورت حال کی تحقیق کی ، اس نے (یہودی کے بیان کردہ واقعہ کی تردید نہیں کی بلکہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوں کی توں ساری بات بتادی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (فریقین کے بیانات سن کر ) فرمایا : مجھ کو موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو اس لئے کہ قیامت کے دن (صور پھونکے جانے پر) جب سب لوگ بیہوش ہو کر گر پڑیں گے تو ان کے ساتھ میں بھی بیہوش ہو کر گر جاؤں گا پھر سب سے پہلے ہوش میں آنے والا شخص میں ہوں گا ، لیکن (جب میں ہوش میں آؤں گا تو ) دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ موسی بیہوش ہوجانے والے لوگوں میں شامل ہوں گے اور ان کی بیہوشی مجھ سے پہلے ختم ہوچکی ہوگی یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ (اور بیہوش ہو کر گر پڑنے والے لوگوں میں شامل ہی نہیں ہوں گے ) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا اس وقت یہ ہوگا کہ طور پر موسی علیہ السلام کی بیہوشی کو (قیامت کے دن کی ) اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا یا یہ ہوگا کہ (بیہوش ہو کر گرپڑنے والوں میں وہ بھی شامل ہوں گے مگر) وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے ۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے افضل ہے ۔"
اور حضرت ابن سعید کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دونوں فریق کے بیانات سن کر ) فرمایا تم انبیاء میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہ دو" ( بخاری ومسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ۔" تم اللہ کے نبیوں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو۔

تشریح :
قرآن کریم میں حضرت موسی علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انی اصطفیتک علی الناس (یعنی اے موسی (علیہ السلام ) میں نے تمہیں تمام لوگوں میں سب سے بہتروافضل قرار دیا ہے ) تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو ان کے زمانہ کے تمام لوگوں میں سب سے بہتر قرار دیا تھا ، لیکن اس یہودی نے حضرت موسی علیہ السلام کو برگزیدگی اور افضلیت کے اس مفہوم کو مطلق رکھا اور یہ دعوی کیا کہ حضرت موسی علیہ السلام ہر زمانہ کے تمام لوگوں سے افضل اور سب سے بہتر ہیں ، اور اس طرح اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برگزیدگی اور افضلیت کا انکار کیا، اسی وجہ سے اس کے مخالف مسلمان کو طیش آگیا اور انہوں نے اس کے طمانچہ رسید کردیا۔ یا یہ ہوگا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ قرار دے دیا ہوگا ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو یہ فرمایا ہے کہ ۔
ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض الا من شآء اللہ ط
" اور (جب قیامت کے دن) صور میں پھونک ماری جائے گی توتمام آسمان اور زمین والے بیہوش ہوجائیں گے علاوہ ان کے جن کو اللہ تعالیٰ نے بیہوش کرنا چاہے گا (جسے فرشتے )۔"
تو یہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح فرشتوں پر بیہوشی طاری ہوگی اس طرح اللہ تعالیٰ حضرت موسی علیہ السلام کو بھی بہوش ہونے سے مستثنیٰ کردے گا ! بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں صورتیں ذکر فرما کریہ واضح کیا دونوں ہی صورتوں میں حضرت موسی علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ، اگر یہ ہوگا کہ تمام لوگوں کی طرح حضرت موسی علیہ السلام بھی بیہوش ہوجائیں گے ، تو میرا ہوش میں آنے کے بعد ان کو اس طرح دیکھنا کہ وہ عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں ، یہ ثابت کرے گا کہ وہ مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آگئے تھے، اس صورت میں مجھ پر ان کی فضیلت بالکل ظاہری بات ہے ، اور اگر یہ ہوگا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو بیہوش ہوجانے والو میں شامل نہیں کیا جائے گا اور وہ سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوں گے حالانکہ مجھ پر بیہوشی طاری ہوجائے گی ، تو یہ صورت بھی ان کی فضیلت کو ظاہر کرنے والی ہے ، اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس معاملہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو مجھ پر فضیلت حاصل ہے تو پھر مجھ کو ان پر فضیلت دینے کے کیا معنی ہیں لیکن اس بات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرنفسی پر محمول کرنا چاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ انکسار حضرت موسی علیہ السلام کی فضیلت کو اس طرح ظاہر فرمایا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت موسی علیہ السلام ہی کو جو شرف حاصل ہوگا وہ زیادہ سے زیادہ جزوی فضیلت کی نوعیت رکھتا ہے جو اس بات کے منافی نہیں کہ کلی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہے ۔ ایک بات یہ بھی کہی جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے جو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام سے افضل نہیں ہیں تو یہ اس وقت کا ارشاد ہے جب کہ وہ وحی نازل نہیں ہوئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک سے افضل واشرف ہونا مذکور ہے ، اس وحی کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہوچکی ہے " میں نہیں کہہ سکتا کہ کوہ طور پر بیہوش ہو کر گرپڑنا ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ اس جملہ کی وضاحت یہ ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور پر حق تعالیٰ کی ذات کے دیدار کی خواہش کی تو بارگاہ رب العزت سے جواب ملا کہ موسی (علیہ السلام ) تم مشاہدہ ذات کی تاب نہ لاسکو گے اچھا دیکھو ہم اپنی ذات کی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے اگر یہ تجلی کو برداشت کرلے تو پھر تم اپنی خواہش ظاہر کرنا اس کے بعد طور پر حضرت حق کی تجلی نے ظہور کیا تو پہاڑ کا وہ حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور حضرت موسی علیہ السلام بھی اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بیہوش ہوگئے اور گر پڑے ۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ طور پر حضرت موسی علیہ السلام کی اس بیہوشی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ اگر حضرت موسی علیہ السلام قیامت کے دن اس موقع پر بیہوش ہو کر گرپڑنے سے محفوظ ومستثنیٰ رکھے جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ اس استثنا کی وجہ ان کی کوہ طور کی بیہوشی ہو جس کو قیامت کی اس بیہوشی کے حساب میں شمار کرلیا جائے گا واضح رہے کہ یہاں جس صعقہ ( یعنی قیامت کے دن بیہوش ہوجانے کا ذکر ہے اس سے وہ صعقہ مراد نہیں ہے جو" موت وہلاکت " کے معنی میں ہے اور جس کا ظہور ابتداء قیامت میں صور پھونکے جانے کے بعد ہوگا کیونکہ اس صعقہ کے وقت ، کہ جب پہلا صور پھونکے جانے کے بعد تمام عالم زیروزبر ہوجائے گا اور ہر متنفس کی موت وہلاکت واقع ہوگی ، بھلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کہاں موجود ہوں گے کہ ان پر صعقہ طاری ہوگا ، پھر یہ کہ اس صعقہ کے بعد بعث (یعنی دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ) ہوگا نہ کہ افاقت (یعنی بیہوشی کا زائل ہونا ) اور یہ بات بھی متفقہ طور پر مسلم ہے کہ اس صعقہ کے بعد (میدان حشر میں ) سب سے پہلے اٹھنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہوں گے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ فلاادری کان فیمن صعق الخمود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس صعقہ کا ذکر فرمایا ہے اس سے وہ صعقہ مراد ہے جو بعث کے بعد میدان حشر میں میں پیش آئے گا کہ سب لوگ بیہوش ہو کر گرپڑیں گے اور اس کے بعد جب سب لوگ افاقہ پائیں گے یعنی ہوش میں آئیں گے تو سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آئے گا ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھیں گے کہ حضرت موسی علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے کھڑے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو حضرت موسی علیہ السلام بیہوش ہونے والوں میں شامل ہی نہیں ہونگے یا وہ بھی بیہوش ہوئے ہوں گے تو پھر ان کی بیہوشی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے زائل ہوچکی ہوگی ۔ بہرحال اس ارشاد گرامی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ " مجھے موسی علیہ السلام پر فضیلت نہ دو " تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انبیاء کے درمیان شرف وفضیلت کے اعتبار سے کوئی فرق مراتب نہیں اور یہ کہ حضرت موسی علیہ السلام یا کسی بھی نبی کے مقابلہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل نہ کہا جائے بلکہ اس ارشاد کا اصل مقصد یہ ہدایت دینا ہے کہ کسی نبی کو خواہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات کیوں نہ ہوں ، کسی دوسرے نبی کے مقابلہ پر اس طرح اور اس انداز میں افضل واشرف نہ کہو کہ اس (مفضول ) نبی کی تحقیر وتوہین ہویا یہ ظاہر ہو کہ ایک نبی کو تو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے اور دوسرے نبی کو مرتبہ سے گرایا جارہا ہے کیونکہ اس طرح کا اظہارفضیلت نہ صرف یہ کہ انبیاء کی عظمت اور ان کے احترام کے خلاف ہے ، بلکہ مختلف نبیوں کے ماننے والوں کے درمیان باہمی خصومت وعداوت کا سبب بھی ہم ۔ یا مذکورہ ارشاد گرامی کی مراد یہ کہ کسی نبی کے مقابلہ پر فضل وشرف کے تمام انواع کے ساتھ اس طرح فضیلت دینے کی ممانعت مراد ہے کیونکہ نفس نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں اور ہر نبی یکساں حیثیت رکھتا ہے ۔
اور میں تو یہ بھی نہیں کہتا کہ کوئی شخص یونس ابن متی سے افضل ہے ۔ لفظ" متی" حضرت یونس علیہ السلام کے باپ کا نام تھا، جیساکہ قاموس میں مذکور ہے ، لیکن جامع الاصول میں یہ ہے کہ متی ان کی ماں کا نام تھا۔ حضرت یونس علیہ السلام کے خاص طور پر ذکر کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اولوالعزی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ یہ کیا کہ جب ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی اور ان کو ایذاء پہنچائی تو وہ بے صبری کی وجہ اور غصہ کے مارے قوم کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشتی میں جابیٹھے ۔ لہٰذا ان کا یہ طرز عمل لوگوں کو اس گمان میں مبتلا کرسکتا تھا کہ ان کے مقابلہ پر کسی نبی کو فضیلت دینا موزوں ہے اور یہ کہنا غیر مناسب بات نہیں ہے کہ حضرت یونس کے مقابلہ پر فلاں نبی زیادہ افضل ہم لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کے ذریعہ اپنی امت کے لوگوں کو اس گمان سے بھی باز رکھا اور واضح کیا کہ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی ذات پر طعن اور ان کی تحقیر کے مرادف ہے ۔
" تم کسی نبی کو کسی نبی پر فوقیت نہ دو۔ " کا مطلب یہ ہے کہ یوں نہ کہو کہ فلاں نبی کے مقابلہ پر فلاں نبی افضل ہے ۔ اور یہی مطلب اس ارشاد کا ہے کہ تم اللہ کے نبیوں میں کسی کو کسی پر فضیلت نہ دو ۔" اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے اس ممانعت سے یا تو یہ مراد ہے کہ نفس نبوت کے اعتبار سے کسی نبی کو کسی نبی کے مقابلہ پر فضیلت نہ دو کیونکہ اصل مرتبہ نبوت کے اعتبار سے تمام انبیاء برابر ہیں ، یایہ مراد ہے کہ نبی کو کسی نبی کے مقابلہ میں اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور کسی نبی کی افضلیت کو اس انداز میں بیان نہ کرو کہ دوسرے نبیوں کی تحقیر وتوہین لازم آئے کیونکہ یہ چیز (یعنی کسی نبی کی تحقیر وتوہین کامرتکب ہونا ) کفر ہے اور یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت اس وقت ارشاد فرمائی تھی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت کو ظاہر کرنے والی وحی نازل نہیں ہوئی تھی ، اس وحی کے نزول کے بعد یہ ممانعت ختم ہوگئی اور یہ بات ثابت قرار پائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بھی نبی کے مقابلہ پر افضل واشرف کہنا درست ہے۔
لاتفضلوابین انبیاء اللہ لفظ " تفضلوا " مشکوۃ کے اکثر نسخوں میں ضاء ہی کے ساتھ منقول ہے لیکن ایک نسخہ میں یہ لفظ صاد کے ساتھ (لاتفصلوا ) منقول ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ " تم اللہ کے نبیوں کے درمیان کوئی فرق وامتیاز نہ کرو " اس صورت میں کہا جائے گا کہ یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے (لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ) 3۔ ال عمران : 84)

یہ حدیث شیئر کریں