مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ سیدالمرسلین کے فضائل ومناقب کا بیان ۔ حدیث 321

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ختم نبوت :

راوی:

وعن العرباض بن سارية عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال : " إني عند الله مكتوب : خاتم النبيين وإن آدم لمنجدل في طينته وسأخبركم بأول أمري دعوة إبراهيم وبشارة عيسى ورؤيا أمي التي رأت حين وضعتني وقد خرج لها نور أضاء لها منه قصور الشام " . وراه في " شرح السنة "

اور حضرت عرباض ابن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی وقت سے خاتم النبین لکھا ہوا ہوں جب کہ آدم علیہ السلام اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے ۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوں میرا پہلا امر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت ہے ، اور میری ماں کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا ، حقیقت یہ ہے کہ میری ماں کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے ان پر شام کے محلات کو روشن کردیا تھا ۔ اس روایت کو بغوی نے (اپنی اسناد کے ساتھ) شرح السنۃ میں نقل کیا ہے ۔ نیز امام احمد نے بھی اس روایت کو ساخبرکم سے آخرتک ابوامامہ سے نقل کیا ہے

تشریح :
وان ادم لمنجدل فی طینہ ۔" میں لفظ " طینہ " کے معنی گوندھی ہوئی مٹی ، کیچڑ اور گارے کے ہیں خلقت اور جبلت کو بھی " طینت " کہتے ہیں ۔" حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ میرا خاتم النبیین کی حیثیت سے اس دنیا میں مبعوث ہونا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت لکھا جا چکا تھا جب آدم علیہ السلام آب وگل کے درمیان تھے ، اور نہ صرف یہ کہ ان کے پتلے میں جان نہیں پڑی تھی بلکہ ان کا پتلا بن کرتیار بھی نہیں ہوا تھا بن رہا تھا ۔ اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق وپیدائش سے بھی پہلے متعین ومقرر ہوجانے سے کیا مراد ہے ؟ اگر اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر الہٰی میں ہونا مراد ہے تو یہ بات تمام ہی انبیاء کے متعلق کہی جاسکتی ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تخصیص کے کیا معنی ، اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا بالفعل ظاہر ہونا مراد ہے تو یہ خلاف واقعہ ہوگا ، کیونکہ بالفعل کا تعلق اس دنیا سے ہے اور ظاہر ہے کہ اس دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اظہار حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق وپیدائش کے ہزاروں سال بعد ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا تمام فرشتوں اور روحوں میں ظاہر ومتعارف کردیا جانا ہے ، جیسا کہ ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم شریف کا عرش ، آسمان ، اور جنت کے محلات وبالاخانوں پر حورعین کے سینوں پر، جنت کے درختوں اور طوبی درخت کے پتوں پر ، اور فرشتوں کی آنکھوں اور بھوؤں پر لکھا ہونا منقول ہے ۔ اور بعض عارفین نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک عالم ارواح میں تمام روحوں کی تربیت واصلاح کرتی تھی جیسا کہ اس دنیا میں تشریف لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اس دنیا میں اجسام انسانی کی مربی ومصلح ہوئی اور یہ بات کسی شک وشبہ کے بغیر ثابت ہے کہ تمام روحیں اپنے اجسام سے بہت پہلے عالم وجود میں آچکی تھیں ۔
میرا پہلا امر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ۔ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا نہ صرف یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وجود پذیر ہونے سے پہلے تجویز اور عالم بالا میں ظاہر ہوچکا تھا بلکہ اس دنیا میں بھی میری جسمانی پیدائش سے بہت پہلے مختلف انبیاء کے ذریعہ میری نبوت ورسالت اور میرے علو مرتبہ کا ظہور ہوچکا تھا اس کی دلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا ہے جوانہوں نے میری رسالت کے متعلق خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت کی تھی اور جس کو قرآن کریم میں اس طرح نقل کیا گیا ہے (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) 2۔ البقرۃ : 129)
میرے پروردگار اور اس جماعت (اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد) میں ان ہی کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کردیجئے جوان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیا کرے اور ان کو پاکیزہ کردیں بلاشبہ آپ ہی غالب القدرۃ اور کامل الانتظام ہیں ۔"
اسی طرح اس دنیا میں میری آمد سے کہیں پہلے حضرت عیسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے میری نبوت ورسالت کی خوشخبری دے دی تھی ، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے ۔
ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ۔
اور (اے بنی اسرائیل ) میرے بعد جو ایک رسول آنے والے ہیں اور جن کا نام " احمد " ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں ۔"
نیز میری پیدائش سے پہلے میری والدہ محترمہ کا بشارت انگیز خواب دیکھنا اور میری پیدائش کے وقت ان کے ساتھ حیرت ناک واقعات وحالات کا پیش آنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ میری نبوت ورسالت کانور ، اس دنیا میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے ہی پر تو فگن ہوچکا تھا۔ حدیث کے اس جملہ جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کے تحت علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ شارحین نے لکھا ہے کہ ان الفاظ کی مراد خواب میں دیکھنا بھی ہوسکتا ہے اور حالت بیداری میں دیکھنا بھی ، پہلی صورت میں پیدائش کے وقت سے کچھ پہلے عرصہ مراد ہوگا جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں ولادت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے خواب میں دیکھا ایک فرشتہ آیا اور کہہ رہا ہے کہ کہو : میں اس بچہ کو (جو میرے پیٹ سے پیدا ہونے والاہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) ہر حسد کرنے والے کے شر سے خدائے واحد کی پناہ میں دیتی ہوں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس سے پہلے استقرار حمل کے وقت بھی خواب میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ کیا تم جانتی ہو تمہارے پیٹ میں اس امت کا سردار نبی ہے ۔ دوسری صورت میں بحالت بیداری دیکھنا مراد ہو ، کہا جائے گا کہ انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا ۔ کا تعلق اس چیز کے دیکھنے سے ہے جس کا ذکر اس جملہ میں محذوف ہے ، مگر آگے کی عبارت اس کی پوری وضاحت کرتی ہے ، اور بعض روایتوں میں بھی آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت ایسا نور ظاہر ہوا کہ جس سے شام کے محلات تک روشن ونمایاں ہوگئے ، اس کی حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ اس وقت دنیا میں اس ہستی کا ظہور ہواہے جس کی نبوت ورسالت کی روشنی مشرق سے لے کر مغرب تک پوری روئے زمین کو منور کردے گی اور کفروضلالت کا اندھیرا ہلکا پڑجائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں