مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان ۔ حدیث 428

دعوت حق کی پاداش میں عمائدین قریش کی بدسلوکی اور ان کا عبرتناک انجام :

راوی:

وعن عبد الله بن مسعود قال : بينما رسول الله صلى الله عليه و سلم يصلي عند الكعبة وجمع قريش في مجالسهم إذ قال قائل : أيكم يقوم إلى جزور آل فلان فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها ثم يمهله حتى إذا سجد وضعه بين كتفيه وثبت النبي صلى الله عليه و سلم ساجدا فضحكوا حتى مال بعضهم على بعض من الضحك فانطلق منطلق إلى فاطمة فأقبلت تسعى وثبت النبي صلى الله عليه و سلم ساجدا حتى ألقته عنه وأقبلت عليهم تسبهم فلما قضى رسول الله صلى الله عليه و سلم الصلاة قال : " اللهم عليك بقريش " ثلاثا – وكان إذا دعا دعا ثلاثا وإذا سأل سأل ثلاثا – : " اللهم عليك بعمرو بن هشام وشيبة بن ربيعة والوليد بن عتبة وأمية بن خلف وعقبة بن أبي معيط وعمارة بن الوليد " . قال عبد الله : فو الله لقد رأيتهم صرعى يوم بدر ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " وأتبع أصحاب القليب لعنة " . متفق عليه

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن ) جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اور وہاں (کعبہ کے پاس ) قریش (کے عمائدین ) کا ایک گروہ مجلس جمائے بیٹھا تھا اچانک ان میں ایک شخص نے کہا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو اٹھ کر فلاں محلہ اور قبیلہ میں ) جائے جہاں فلاں خاندان میں ایک اونٹ ذبح کیا گیا ہے اور اس ( اونٹ کی ) غلاظت سے بھری ہوئی اوجھڑی ، اس کا خون اور اس کا پوست اٹھا لائے اور ان سب گندی اور غلیظ چیزوں کو ) رکھ لے پھر جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو وہ ان سب چیزوں کو ان کے دونوں مونڈھوں کے درمیان ڈال دے (یہ سن کر ) ایک انتہائی بدبخت شخص (عتبہ ابن معیط ابوجہل ) اٹھا اور ان چیزوں کو لانے کے لئے چلا گیا ( اور یہ سب چیزیں لے کر آگیا ) چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے ان چیزوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مونڈھوں کے درمیان رکھ دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (ان گندی چیزوں کا بوجھ اٹھا نہ سکے اور ) سجدے میں پڑے رہ گئے ، وہ بدبخت یہ دیکھ کر ہنستے اور ٹھٹھا مارنے لگے اس ہنسی میں اس قدر بدحال ہوئے اور ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گرگئے ، جب ہی کسی شخص نے جا کر حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہہ دیا ، حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا دوڑی ہوئی آئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک (ان غلاظتوں میں دبے ہوئے) سجدے میں پڑے تھے ، حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان تمام چیزوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سے اٹھا کر پھینکا اور ان بدبختوں کی طرف متوجہ ہو کر ان کو برا بھلا کہنے لگیں ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دعا کی : اے اللہ تو ان قریش کوسخت پکڑ ، یعنی مشرکین قریش کو ہلاک وبرباد فرما ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے تو تین بار التجا کرتے ۔ پھر عمومی طور پر قریش کے حق میں بددعا فرمانے کے بعد خاص طور سے ان ازلی بدبختوں کا نام لے کر یوں بددعا فرمائی ، اے اللہ ! تو عمرو ابن ہشام (ابوجہل ) کو عتبہ ابن ربیعہ اور شیبہ ابن ربیعہ (دونوں بھائیوں ) کو ولید بن عتبہ کو، امیہ ابن خلف کو ، عقبہ ابن معیط ، اور عمارہ ابن ولید کو سخت پکڑ ۔" حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (راوی ) نے (یہ روایت بیان کرکے ) کہا کہ اللہ کی قسم میں نے جنگ بدر کے دن مذکورہ کافروں کو ہلاک شدہ زمین پر پڑے دیکھا ، پھر ان کو میدان سے کھینچ کر ایک کنوئیں میں ، جو مقام بدر کا کنواں تھا پھینک دیا گیا اور (اس وقت ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ان لوگوں کو جو کنوئیں میں پھینکے گئے ہیں ملعون قرار دے دیا گیا ہے ۔" ( بخاری ومسلم)

تشریح :
اچانک ان میں سے ایک شخص نے کہا ۔" کے تحت شارحین نے لکھا ہے کہ وہ شخص ابوجہل تھا !نیز ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز اور عبادت میں مشغول دیکھ کر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرکے ان میں سے ایک شخص نے کہا الاینتظرون الی ہذا المرائی (ذرا اس ریا کار کو تو دیکھو۔" )
اس وقعہ کے وقت حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت چھوٹی عمر کی تھیں کیونکہ ان کی پیدائش کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اکتالیس سال کی تھی ، لیکن اس بچپنے میں بھی یہ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی غیر معمولی عالی ہمتی تھی کہ وہ اس خبر کو سنتے ہی عمائدین قریش کے بھرے مجمع میں بھاگی چلی ان سب کافروں کو منہ در منہ برا بھلا کہا اور کسی کو بھی ان کے مقابلہ پر آنے کی مجال نہیں ہوئی ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ان کے حق میں بددعا کے الفاظ جاری ہوگئے اور ایک ایک کرکے یہ سارے بدبخت اپنے برے حشر کو پہنچے ۔
لطف حق گرچہ موا ساہا کند
لیک چوں از حدبشد رسوا کند
ان لوگوں کو جو کنوئیں میں پھینکے گئے ہیں ، ملعون قرار دے دیا گیا ہے ۔" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف روئے سخن کر کے فرمائے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنوئیں میں پھینکی گئی ان مشرکین کی لاشوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا : بلاشبہ ہم نے اس چیز (یعنی فتح ونصرت ) کو پالیا جس کا ہم سے ہمارے رب نے وعدہ کیا تھا اور یقینًا تم نے بھی وہ چیز (یعنی عذاب اور سخت ترین سزا ) پالی ہوگی جس کا تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا ۔" حدیث کے یہ آخری الفاظ گو یہاں نقل نہیں کئے گئے ہیں ، لیکن کتاب الجہاد کی ایک روایت میں نقل ہوچکے ہیں ۔ نیز ان تمام عمائدین قریش اور مشرکین مکہ کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ سب جنگ بدر میں ہلاک وبرباد ہوئے اور ان کی لاشوں کو کنوئیں میں ڈال دیا گیا ، اکثر کے اعتبار سے ہے کہ ان میں سے زیادہ ترمشرکوں کا یہی حال ہوا اور ان میں سے بعض مشرکین مثلا عمارہ بن ولید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک نہیں تھا بلکہ حبشہ میں مرا ، اسی طرح عقبہ ابن ابومعیط جنگ بدر سے تو بچ کر آگیا تھا مگر بعد میں بڑی بری طرح مارا گیا ، نیز امیہ ابن خلف جنگ بدر ہی میں مارا گیا تھا مگر اس کی لاش اتنی زیادہ پھول گئی تھی کہ بھاری ہوجانے کے سبب اس کو کھینچ کر کنوئیں میں نہیں ڈالا جاسکا ، یہ ساری تفصیل سیرت وتاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے ۔
اس حدیث کے بارے میں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر ناپاک اور گندی چیزیں ڈال دی گئی تھیں تو یقینًا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک اور کپڑے ناپاک ہوگئے تو اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بدستور کیسے مشغول رہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب خون وغیرہ اور مشرکین کے ذبیحہ کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا جیسا کہ شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے جب کپڑے کو شراب لگ جاتی تھی تو اس کے کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے اور وہ نماز ہوجاتی تھی ۔

یہ حدیث شیئر کریں