مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان ۔ حدیث 429

عقبہ کے سخت ترین مصائب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال تحمل وترحم :

راوی:

وعن عائشة أنها قالت : هل أتى عليك يوم كان أشد من يوم أحد ؟ فقال : " لقد لقيت من قومك فكان أشد ما لقيت منهم يوم العقبة إذ عرضت نفسي على ابن عبد يا ليل بن كلال فلم يجبني إلى ما أردت فانطلقت – وأنا مهموم – على وجهي فلم أفق إلا في قرن الثعالب فرفعت رأسي فإذا أنا بسحابة قد أظلتني فنظرت فإذا فيها جبريل فناداني فقال : إن الله قد سمع قول قومك وما ردوا عليك وقد بعث إليك ملك الجبال لتأمره بما شئت فيهم " . قال : " فناداني ملك الجبال فسلم علي ثم قال : يا محمد إن الله قد سمع قول قومك وأنا ملك الجبال وقد بعثني ربك إليك لتأمرني بأمرك إن شئت أطبق عليهم الأخشبين " فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " بل أرجو أن يخرج الله من أصلابهم من يعبد الله وحده ولا يشرك به شيئا " . متفق عليه

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک (دن ) عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا احد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گذرا ہے ؟ (احد کی جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ مصیبتوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا ذکر آگے کی حدیث میں آرہا ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ سوال سن کر) فرمایا : تمہاری اس قوم کی طرف سے جو صورت حال پیش آئی تھی وہ احد کے دن سے کہیں زیادہ مجھ پر سخت تھی اور یہ عقبہ کے دن کا واقعہ ہے جب میں نے تمہاری اس قوم سے ایسی سخت اذیتیں اٹھائیں جن سے زیادہ سخت اذیتیں ان کی طرف سے عمر بھر مجھے کبھی نہیں پہنچیں ہوا یہ تھا کہ میں اس دن ابن عبد یا لیل ابن کلال کے پاس پہنچا (اور اس کو اسلام قبول کرنے کی تلقین کی ) لیکن اس نے میری (تلقین پر کوئی توجہ نہیں دی اور میں رنجیدہ وغمگین اپنے منہ کی سیدھ میں چل پڑا ( اور چلتا ہی رہا ) یہاں تک کہ قرن ثعالب پہنچ کر میرے حو اس قابو میں آئے ، میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک (بڑا ) ابر کا ٹکڑا ہے جو مجھ پر سایہ کئے ہوئے ہے اور پھر اچانک میری نظر اس ابر کے ٹکڑے میں جبرائیل علیہ السلام پر پڑی ۔ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی اور اس کا وہ جواب بھی سن لیا جو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانا سب معلوم ہے ) اور اب اس (پروردگار ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہا ڑوں کے فرشتہ کو (جس کے سپرد تمام روئے زمین کے کوہ وجبل کی عملداری ہے ) اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم (کی ہلاکت وتباہی اور ان تمام ظالموں کو پہاڑوں میں دبا دینے ) کے بارے میں جو چاہیں حکم صادر فرمائیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کے بعد پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھ کو (یا نبی !یامحمد ! کہہ کر ) مخاطب کیا اور سلام کرکے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کی بات سن لی ہے ، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں ، مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے فیصلہ کی تعمیلکا حکم دیں ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے لوگوں پر ان دونوں پہاڑوں اخشبین کو الٹ دوں (جن کے نیچے دب کر سب کے سب نیست ونابود ہوجائیں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ سن کر ) فرمایا (میں ان کی ہلاکت کا خواہاں نہیں ہوسکتا ) بلکہ میں تو یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ پیدا فرمادے جو صرف اسی ایک اللہ کی عبادت کریں اور کسی بھی چیز کو اس کا شریک قرار نہ دیں (یعنی نہ شرک جلی میں مبتلا ہوں اور نہ شرک خفی میں ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح :
عقبہ " اصل میں تو اس راستہ کو کہتے ہیں جو دو پہاڑوں کے درمیان گزرتا ہے ، لیکن بظاہر یہاں عقبہ سے مراد وہ جگہ ہے جو منی میں واقع ہم اور جس کی طرف جمرہ کی نسبت کرکے جمر ۃ العقبہ کہتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے زمانہ میں اور عام اجتماعات کی جگہ پر لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے ان کے سامنے اللہ کا پیغام رکھتے تھے ، ان کو نیک کاموں کی تلقین وتبلیغ کرتے اور برے کاموں سے باز رکھنے کے لئے اللہ کی عذاب سے ڈراتے ، چنانچہ اس دن بھی یہی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کے مقام پر جمع لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور تمام قبائل کو اللہ کا دین قبول کرلینے کی تبلیغ فرمائی ، اسی ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل کر قبیلہ ثقیف میں پہنچے اور اس قبیلہ کے ایک سردار ابن عبد یالیل ابن کلال کو اسلام کی دعوت دی لیکن نہ صرف یہ کہ ان لوگوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت وتبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی بلکہ وہاں کے جاہلوں اور ظالموں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، سخت ایذائیں پہنچائیں ، انتہاء یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بے تحاشہ پتھر برسائے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون میں شرابور ہوگئے۔
زور اغیار دیوار سنگ یاری بارد
بلائے درد منداں از در و دیوار مے بارد
ایک طرف تو دین حق سے ان کی بے اعتنائی ، دعوت وتبلیغ کی ناکامی ، دوسری طرف ان بدبختوں کا اس قدر تکلیف دہ اور جان سوز رویہ کہ پورا جسم لہولہان ہوگیا ، اس سخت ترین رنج وغم اور انتہائی ہولناک اذیتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید قسم کی سراسیمگی اور بدحواسی طاری کردی ، نہ یہ خبر رہی کہ کدھر سے آئے تھے ، نہ یہ شعور رہا کہ کہاں جانا ہے، نہ راستہ کا پتہ رہا نہ منزل کی پہچان بس جدھر منہ اٹھا چل کھڑے ہوئے ، یوں ہی چلتے چلتے جب کچھ ہوش وحو اس بجا ہوئے اور دل ودماغ نے کام کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ قرن ثعالب کے مقام پر پہنچ گئے ہیں ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نجد کی میقات ہے اور جس کو قرن منازل کہتے ہیں ، اسی جگہ ایک ابر کے ٹکڑے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوئے اور یہیں پہاڑوں پر مامور فرشتہ نے ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اجازت طلب کی مگر یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت وشفقت تھی کہ اس سخت ترین صورت حال سے دوچار کرنے والوں کے خلاف کوئی فیصلہ کرنا ناگوارہ نہیں ہوا اور امید یہ قائم کی اگر ان کو ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوئی تو کیا ہوا ، یقینا اللہ تعالیٰ ان کی اولاد میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا کردے گا جو کفر وشرک کی راہ چھوڑ کر ایمان واسلام کی آغوش میں آجائیں گے ۔

یہ حدیث شیئر کریں