مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کی بعثت اور نزول وحی کا بیان ۔ حدیث 430

غزوئہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کا ذکر :

راوی:

وعن أنس أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كسرت رباعيته يوم أحد وشج رأسه فجعل يسلت الدم عنه ويقول : " كيف يفلح قوم شجوا رأس نبيهم وكسروا رباعيته " . رواه مسلم

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ احد کی لڑائی کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان چار دانتوں میں سے ایک دانت توڑ دیا گیا تھا جن کو رباعیہ کہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک زخمی کردیا گیا ، آپ خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ وہ قوم کیونکر فلاح یاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کا سر زخمی کیا اور اس کے دانت توڑ دئیے ۔ (مسلم )

تشریح :
رباعیہ " عربی میں دواوپر کے اور نیچے کے ان چار دانتوں کو کہتے ہیں جوثنایا اور انیاب کے درمیان ہوتے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کے ان دو دانتوں میں سے داہنی طرف کا ایک دانت ٹوٹا تھا اس کے ساتھ نیچے کا لب مبارک بھی زخمی ہوگیا تھا ،
واضح رہے کہ دانت ٹوٹنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ دانت جڑ سے اکھڑ گیا تھا بلکہ اس کا ایک حصہ ٹوٹ کر علیحدہ ہوگیا تھا نیز جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے یہ دانت توڑا تھا اس کا نام عقبہ بن ابی وقاص اور مشہور صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص کا بھائی تھا ۔ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعد میں عقبہ ابن ابی وقاص مسلمان ہوگیا تھا اور صحابی ہونے کا شرف حاصل کیا تھا یا نہیں ، نیز منقول ہے کہ اس شخص کی نسل میں پیدا ہونے والا ہر شخص جب بالغ ہوجاتا تھا تو اس کا آگے کا دانت خود بخود گر پڑتا تھا اس روایت میں سر مبارک کے زخمی ہونے کا ذکر ہے جب کہ بعض روایتوں میں پیشانی کا زخمی ہونا ذکر کیا گیا تھا ، نیزیہ بھی منقول ہے کہ جو نہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم پہنچا پہاڑ کے اوپر سے ایک چٹان نیچے آکر اس شخص پر گری جس نے حملہ کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کیا تھا اور وہیں ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ جنگ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور بھی بہت سی اذیتوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ، کافروں نے میدان جنگ میں جگہ جگہ گڑھے کھود کر ان کو گھاس پھوس کے ذریعہ اوپر سے پات دیا تھا ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے سمیت ایسے ہی ایک گھڑے میں گر گئے یہ دیکھ کر حضرت طلحہ ابن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی گود میں لے کر اس گڑھے سے باہر نکالا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوجبہ طلحۃ یعنی طلحہ نے اپنے لئے جنت کو واجب کرلیا ، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود جو لوہے کا خود تھا اس کی دو کڑیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک میں پیوست ہوگئی تھیں اور اس بری طرح پیوست ہوئیں کہ جب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے دانتوں میں پکڑ کر کھینچا تو ان کے دانت ٹوٹ کر الگ ہوگئے ، حضرت مالک ابن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم سے بہتے ہوئے خون کو چوس چوس کر صاف کرنا شروع کیا ، اس وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " جس شخص نے میرا بہتا ہوا خون چوس کر صاف کیا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی ۔سر مبارک کے زخم کو صاف کرنے کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی سپر میں پانی بھر کر لائے اور حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نمدے کا ایک ٹکڑا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھری جس سے خون کا بہنا موقوف ہوا ۔ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ جب زخموں کی اذیت سے بتقاضائے بشریت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک میں کچھ تغیرپیدا ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔
(لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ اَوْ يَتُوْبَ عَلَيْھِمْ اَوْ يُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ) 3۔ ال عمران : 128)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دخل نہیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ان پر یا تو متوجہ ہو جاویں اور یا ان کو کوئی سزا دے دیں کیونکہ انہوں نے بڑا ظلم کیا ہے ۔
یہ بھی منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون بہنا شروع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کو زمین پر گرنے سے روکنے کے لئے صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اگر میرے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گرگیا تو ان (کافروں ) پر آسمان سے عذاب اترنے کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ احد کی لڑائی کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر تلوار کی ستر ضربیں پڑیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ضربوں کے اثر سے محفوظ رکھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں