مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ معجزوں کا بیان ۔ حدیث 481

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کئے جانے کا واقعہ

راوی:

وعن عائشة قالت سحر رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى إنه ليخيل إليه أنه فعل الشيء وما فعله حتى إذا كان ذات يوم وهو عندي دعا الله ودعاه ثم قال أشعرت يا عائشة أن الله قد أفتاني فيما استفتيته جاءني رجلان فجلس أحدهما عند رأسي والآخر عند رجلي ثم قال أحدهما لصاحبه ما وجع الرجل قال مطبوب قال ومن طبه قال لبيد بن الأعصم اليهودي قال في ماذا قال في مشط ومشاطة وجف طلعة ذكر قال فأين هو قال في بئر ذروان فذهب النبي صلى الله عليه و سلم في أناس من أصحابه إلى البئر فقال هذه البئر التي أريتها وكأن ماءها نقاعة الحناء ولكأن نخلها رءوس الشياطين فاستخرجه متفق عليه

" اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ( جب ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تو ( تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ ) کسی کام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ہوتا کہ کر لیا ہے حالانکہ وہ کام کیا نہ ہوتا تھا ( کافی دنوں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حالت رہی ) تاآنکہ ایک دن اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر دعا کی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ عائشہ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے دریافت کی تھی ؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ (اللہ تعالیٰ نے میری حالت کے بارے میں مجھ پر اس طرح منکشف کیا کہ ) میرے پاس آدمیوں کی صورت میں دو فرشتے آئے ، ان میں سے ایک تو میرے سرہانے بیٹھا اور دوسرا پائینتی ، پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے ( میری طرف اشارہ کر کے ) پوچھا ! اس شخص کو کیا بیماری ہے ؟ دوسرے نے کہا : اس پر جادو کیا گیا ہے ۔ پھر پہلے نے پوچھا جادو کس نے کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا لبید ابن اعصم یہودی نے پہلے نے پوچھا کس چیز میں جادو کیا گیا ہے ۔ دوسرے نے جواب دیا : کنگھی میں ، ان بالوں میں جو کنگھی سے جھڑتے ہیں اور تر کھجور کے خوشہ کے خول میں ۔ پہلے نے پوچھا : یہ جادو کی ہوئی چیزیں کہاں رکہی ہیں ؟ دوسرے نے جواب دیا : مدینہ کے ایک کنویں ذروان میں ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند مخصوص صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور فرمایا: یہی وہ کنواں ہے جو مجھ کو دکھایا گیا ہے ۔ " اس کنویں کا پانی حنا کی طرح سرخ تھا ، اور کھجور کے وہ خوشے ( جو اس کنویں میں ڈالے گئے تھے ) ایسے تھے جیسے وہ شیطانوں کے سر ہوں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب چیزوں کو کنویں سے نکال لیا ۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
" کسی کام کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ہوتا ۔۔ الخ۔ " بعض شارحین نے اس جملہ کا یہ مطلب یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سحر ( جادو ) کیا گیا تھا اس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نسیان ( بھول ) کا غلبہ اس طرح ہوگیا تھا کہ کسی کام کرنے کے یا نہ کرنے کا خیال بہک جاتا تھا ، مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں یہ بات آجاتی تھی کہ میں نے فلاں کام کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا نہ ہوتا تھا ، کسی بھی دینی معاملہ میں یہ صورت ہرگز پیش نہیں آتی تھی ۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذہنی کیفیت وحالات کو ظاہر کرنے کے لئے یخیل کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کی نظیر قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یخیل الیہ من سحرہم انہا تسعی یعنی موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں یہ بات آئی کہ جادو کے اثر سے خود یہ رسیاں دوڑ رہی ہیں ، حالانکہ رسیاں نہیں دوڑ رہی تھیں ، بلکہ یہ تو ان کافر جادو گروں کی طرف سے نظر بندی کا اثر تھا کہ زمین پر پڑی ہوئی ساکت وصامت رسیاں خیال میں دوڑتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں یا یہ کہ جادوگر نے ان رسیوں پر پہلے سے پارہ جیسی کوئی چیز مل رکھی تھی اور ، جب وہ رسیاں دھوپ میں زمین پر ڈال دی گئیں تو سورج کی تمازت سے ان کی ظاہری سطح پر اس طرح کی لرزش، اور تھرتھرا ہٹ نمایاں ہوگئی جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خیال میں آیا کہ یہ رسیاں خود حرکت کر رہی ہیں ۔
ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت کو جو سحر کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں پیدا ہوگئی تھی ، اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال میں آتا کہ اپنی کسی بیوں سے ہمبستری کریں لیکن پھر نہیں کرتے تھے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں خواہش پیدا ہوتی تھی اور یہ جانتے تھے کہ ہمبستری کی قدرت رکھتا ہوں لیکن جب بیوی کے پاس جاتے تھے تو ان پر قادر نہیں ہوتے تھے ۔ واضح رہے کہ دوسرے امراض کی طرح سحر بھی ایک مرض ہی ہوتا ہے پس انبیاء علیہم السلام کی بشریت کے تحت جس طرح ان پر دوسرے جسمانی امراض اور بیماریوں کا اثر ہوتا تھا اسی طرح سحر کا بھی ان پر اثر انداز ہونا ان کی نبوت کے منافی نہیں ہے، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم شریف میں سحر کی تاثیر اس حکمت کا اظہار بھی تھا کہ سحر کی تاثیر کا ایک حقیقت ہونا اس طرح ثابت ہو جائے کہ جب اشرف المخلوقات کی سب سے عظیم شخصیت بھی سحر سے متاثر ہو سکتی ہے تو دوسرے کی کیا حیثیت ہے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک واضح دلیل بھی ان کفار کے سامنے آئی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر کہا کرتے تھے ، چونکہ سحر خود ساحر پر اثر انداز نہیں ہوتا ۔۔۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر نے اثر کیا تھا لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساحر نہیں ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سحر کئے جانے کا یہ واقعہ ذی الحجہ سن ٦ ھ کا ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے تھے اور علماء کرام نے لکھا ہے کہ سحر کا یہ اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چالیس سال تک رہا، ایک روایت میں چھ مہینے کی مدت بھی منقول ہے، اور ایک قول کے مطابق تو یہ اثر پورے سال تک رہا ۔ تا ہم ان روایتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ غالب گمان یہ کہ اس سحر کا اثر پوری شدت اور غلبہ کے ساتھ چالیس دن تک رہا پھر اس کی کچھ علامتیں چھ ماہ تک باقی رہیں اور کچھ ہلکا سا اثر پورے سال تک رہا ۔ بہر حال جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سحر کی حقیقت کو منکشف فرمایا اور اس سے نجات عطا فرمائی ۔
" اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر دعا کی ۔۔۔ " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار دعا کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ سے التجا میں مسلسل مصروف رہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ صورت حال کے پیش آجانے اور کسی آفت وبلاء کے نازل ہونے پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور گلوخلاصی کی دعا مانگنا مستحب ہے ۔
اس موقع پر علماء کرام نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے خاص اور برگزیدہ بندوں کے دل میں دعاء کا داعیہ اس وقت ڈالتا ہے جب قبولیت کی گھڑی آجاتی ہے ان کے برخلاف عالم لوگوں کا معاملہ دوسرا ہوتا ہے ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رکھا جاتا ہے کہ وہ دعا کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب وقت قبولیت آتا ہے تو ان کی دعا قبول ہوتی ہے ۔
" لبید ابن اعصم یہودی نے " بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں لبید سے مراد اس کی بیٹیاں ہیں، گویا اس فرشتے نے بتایا کہ لبید ابن اعصم کی بیٹیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کیا ہے ، ان حضرات نے یہ مراد قرآن کریم کی سورت قل اعوذبرب الناس اور الفلق کے ان الفاظ کی بنیاد پر بیان کی ہے کہ ومن شرالنفاثات فی العقد یعنی جادوگروں کا پڑھ پرھ کر گنڈہ پر پھونکنا اور گرہ لگاتے جانا، بھی ہو سکتا ہے ۔
قاضی نے خاص طور پر شر نفاثات سے پناہ مانگنے کا سبب لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ایک یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سحر کیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ اس ( یہودی ) نے کمان کے چلہ کو گنڈہ بنایا اور اس میں گیارہ گرہیں ، لگائیں ( جن پر وہ منتر پڑھ پڑھ کر پھونکتا رہا ) اور پھر اس نے اس چلہ ( یاگنڈہ ) کو کنویں میں گاڑ دیا ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس اثر سے بیمار ہوگئے ، تب اللہ تعالیٰ نے معوذتین یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل فرمائی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کنواں بتایا جہاں گنڈہ دفن تھا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھیجا اور وہ اس گنڈہ کو نکال کر لائے اور اس پر یہ دونوں سورتیں پڑھائیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب ایک آیت پڑھتے تو اس گنڈہ کی ایک ایک گرہ خود بخود کھل جاتی ، اس طرح ہر آیت پر ایک ایک گرہ کر کے تمام گرہیں کھل گئیں ، اس کے بعد کا سچ ثابت ہونا لازم نہیں آتا جو وہ کہا کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو سحر زدہ ہیں ۔ وہ تو یہ بات اس معنی میں کہا کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی ایسے سحر کا اثر ہے جس نے ( نعوذ باللہ ) ان کی عقل کو ماؤ ف کر دیا ہے اور ان پر دیوانگی طاری کر دی ہے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے جانے والے اس سحر اور اس کے اثرات کی نوعیت بالکل دوسری تھی ۔ بہر حال بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ قاضی نے جو روایت بیان کی ہے وہ ایک دوسرا واقعہ ہے اور اس واقعہ کے علاوہ ہے جو یہاں ( حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ) حدیث میں بیان کیا گیا ہے ، تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ واقعہ تو ایک ہی ہے مگر الگ الگ دو صورتوں میں ایک ساتھ پیش آیا تھا ، یعنی خود لبید نے بھی اپنی تدبیروں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کیا اور اس کی بیٹیوں نے بھی کیا تھا اور اس طرح حق تعالیٰ نے گویا آپ کے ثواب کو دو چند کرنے کے لئے دونوں سحر کے اثرات میں مبتلا کیا ۔
" جیسے وہ شیطانوں کے سر ہو ۔ ' ' کھجور کے وہ خوشے کچھ تو منتر کے اثرات کی وجہ سے اور کچھ پانی میں پڑے رہنے یا نم زمین میں دفن رہنے کی وجہ سے جتنے زیادہ بد ہیت اور جس قدر وحشت ناک ہوگئے تھے اس کو ظاہر کرنے کے لئے ان کو شیطانوں کے سروں کے ساتھ مشابہت دی کیونکہ اہل عرب شیطان کے سر کو بد ہیتی اور وحشت ناکی کی علامت جانتے تھے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں شیطانوں کے سر سے ہیبت ناک سانپ مراد ہیں ، اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کھجور کے وہ خوشے اس طرح کے ہوگئے تھے جسے ہیبتناک سانپ ہوں ۔ اس واقعہ سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بھی ایک روایت ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ سحر اور اس کی جگہ کا انکشاف ہونے کے بعد ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی اور حضرت عمار کو سحر کی یہ چیزیں نکالنے کے لئے ذروان کنویں پر بھیجا ۔ جب ان دونوں نے کھجور کا وہ خوشہ کنویں سے نکالا تو اس کے خول میں ان کو موم کا بنا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پتلا ملا ، اس پتلے میں سوئیاں چھبوئی ہوئی تھیں اور اس کے اوپر ایک ڈورا گیارہ گرہوں کے ساتھ لپٹا ہوا تھا پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام معوذتین ( سورت قل اعوذ برب الناس اور قل اعوذ برب الفلق ) لے کر نازل ہوئے ان دونوں سورتوں کا پڑھا جانا شروع ہوا تو ہر آیت پر ایک گرہ کھلنے لکی اور اس پتلے میں سے کوئی سوئی نکالی جاتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین وراحت محسوس ہوتی اسی طرح ایک ایک کر کے تمام گرہیں کھل گئیں اور اس پتلے میں سے سب سوئیاں نکال لی گئیں ۔ اس روایت کے متعلق شارحین نے لکھا ہے کہ ان دونوں حضرات کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے ہوں گے اور حضرت علی وحضرت عمار کو کنویں میں جا کر ان چیزوں کے نکال لانے کا حکم فرمایا ہوگا ۔ دوسری روایتوں میں بھی یہ آیا ہے کہ سحر اور ساحر کے اس انکشاف کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ، اور نہ کچھ کہا بلکہ یہ فرمایا ! کہ میں فتنہ ابھارنے کو پسند نہیں کرتا ۔ "

یہ حدیث شیئر کریں