مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 53

ایمان پر ثابت رہنے والوں کو دجال سے کوئی خوف نہیں ہوگا ۔

راوی:

وعن أي عبيدة بن الجراح قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنه لم يكن نبي بعد نوح إلا قد أنذر الدجال قومه وإني أنذركموه فرصفه لنا قال لعله سيدركه بعض من رآني أو سمع كلامي . قالوا يا رسول الله فكيف قلوبنا يومئذ ؟ قال مثلها يعني اليوم أوخير . رواه الترمذي وأبو داود .

" اور حضرت عبیدہ بین الجراح کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا " حقیقت یہ ہے کہ نوح علیہ السلام کے بعد ایسا کوئی نبی نہیں گزرا جس نے اپنی قوم کو دجال سے نہ ڈرایا ہو اور میں بھی ( بار بار مختلف مواقع پر دجال کے احوال مکر و تلبیس اور اس کی حقیقت وحیثیت کو بیان کرکے ) تمہیں اس سے ڈراتا رہتا ہوں " اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے دجال کے ( کچھ ) احوال بیان کئے اور پھر فرمایا " شاید ان لوگوں میں سے کہ جنہوں نے مجھے دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہے ، کوئی شخص اس ( کے زمانہ ) کو پائے ، صحابہ کرام نے ( یہ سن کر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت ہمارے قلوب کی ( یعنی اہل ایمان کے قلوب کی ) کیا حالت ہوگی ؟ " فرمایا بالکل ایسی ہی جیسے آج کے دن ہے یا اس سے بھی بہتر ۔ " ( ترمذی ، ابوداؤد )

تشریح :
یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا تھا! پس نوح علیہ السلام کے بعد " سے مراد یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی ڈرایا اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء نے بھی ڈرایا ۔
" ان لوگوں میں سے کہ جنہوں نے مجھے دیکھا ہے الخ ، یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرض کرکے فرمائی کہ دجال کا ظہور اگر جلد ہی ہو جائے ! اور بعض لوگوں نے اس جملہ کا مشار الیہ حضرت خضر علیہ السلام کو قرار دیا ہے ، اور کہا ہے کہ یہ خضر علیہ السلام کے اس دنیا میں موجود ہونے کی دلیل ہے ! یا " میرا کلام سنا ہے " اس کے حکم میں ہر وہ اہل ایمان آجاتا ہے جس تک دجال کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پہنچیں، اگرچہ اس کا زمانہ آنحضرت کے زمانہ سے کتنے ہی بعد کیوں نہ ہو بہر حال اس پورے جملہ کا مطلب گویا یہ تھا کہ دجال کا وجود اور اس کا ظاہر ہونا یقینی امر ہے ، البتہ اس وقت کا تعین کے ساتھ علم نہیں ہے کہ وہ کب ظاہر ہوگا ، لہٰذا اگر ایسا ہو کہ میرے صحابہ میں سے کوئی اس کا زمانہ پائے تو فبہا ورنہ جو اہل ایمان بعد میں آئیں گے وہ دجال کا زمانہ پائیں گے ان تک چونکہ میری احادیث پہنچیں گی اور میں نے دجال کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس کو وہ سنیں اور پڑھیں گے اس لئے ان کو چاہیے کہ وہ یقین پر قائم رہیں اور دجال کے مکر و فریب میں نہ آئیں ۔
جیسے آج کے دن ہے یا اس سے بھی بہتر " کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ( یعنی اہل ایمان ) اپنے ایمان وعقیدہ پر ثابت وقائم رہے گا اس کا دل بھی اپنی جگہ مضبوط رہے گا کہ اس میں دجال کے خوف کا گزر تک نہیں ہوگا اور اس کے مکروفریب سے کوئی خدشہ نہیں رہے گا ، جس طرح کوئی اہل ایمان اس وقت کا منکر ومخالف ہے اسی طرح اس وقت بھی منکر ومخالف ہوگا بلکہ اس کے احوال اور اس کے مکروفریب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے سبب اس انکار ومخالفت میں کہیں زیادہ اضافہ ہو جائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں