مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 558

حیات نبوی کے آخری لمحات

راوی:

وعن عائشة قالت : إن من نعم الله علي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم توفي في بيتي وفي يومي وبين سحري ونحري وأن الله جمع بين ريقي وريقه عند موته دخل علي عبد الرحمن بن أبي بكر وبيده سواك وأنا مسندة رسول الله صلى الله عليه و سلم فرأيته ينظر إليه وعرفت أنه يحب السواك فقلت : آخذه لك ؟ فأشار برأسه أن نعم فتناولته فاشتد عليه وقلت : ألينه لك ؟ فأشار برأسه أن نعم فلينته فأمره وبين يديه ركوة فيها ماء فجعل يدخل يديه في الماء فيمسح بهما وجهه ويقول : " لا إله إلا الله إن للموت سكرات " . ثم نصب يده فجعل يقول : " في الرفيق الأعلى " . حتى قبض ومالت يده . رواه البخاري

اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے جن انعامات سے مجھے خصوصی طور پر نوازا ان میں سے یہ بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں اور میری باری کے دن وفات پائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینہ اور ہنسلی کے درمیان اپنی جان جاں آفرین کے سپرد کی ، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میرے اور آپ کے لعاب دہن کو جمع کردیا (جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان آخری لمحات میں میرے عزیز بھائی عبدالرحمن ابن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جب میرے پاس آئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے سینہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر (بار بار) ان کی طرف (یعنی عبدالرحمن کی طرف یا یہ کہ ان کی مسواک کی طرف ) اٹھ رہی ہے ۔ میں یہ بات چونکہ جانتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (عام طور یا تبدیلی ذائقہ کے وقت خاص طور پر) مسواک کو بہت پسند فرماتے ہیں اس لئے میں نے پوچھا کہ کیا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ مسواک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لے لوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکے اشارہ سے بتایا کہ ہاں لے لو ۔ میں نے عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسواک لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیدی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسواک کرنی چاہی تو اس کے سخت ہونے کی وجہ سے ) دشواری محسوس کی ، اب میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی آسانی کے لئے اس مسواک کو (اپنے دانتوں سے ) نرم کردوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سرکے اشارہ سے اجازت دی تو میں نے مسواک کو نرم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسواک اپنے دانتوں پر پھیری (بالکل آخری لمحات اس طرح گذرے کہ اس وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پانی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اس پانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ ڈالتے اور (بھگوکر ) اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے اور فرماتے : لاالہ الا اللہ ، موت کے وقت سختیاں ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دعا کے لئے یا آسمان کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ) ہاتھ اٹھا کریہ کہنا شروع کیا : (اے اللہ مجھ کو رفیق اعلی میں شامل فرما !یہاں تک کہ روح پرواز کر گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک نیچے گر پڑے ۔" (بخاری )

تشریح :
" اور میری باری کے دن وفات پائی " کے ذریعہ حضرت عائشہ نے اس طرف اشارہ کیا کہ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے دن تک مرض الموت کی پوری مدت میں میرے ہی گھر میں رہے لیکن میری مزید خوش بختی یہ رہی کہ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی وہ حساب کے اعتبار سے وہی دن تھا جس میں میرے ہاں قیام کی باری آتی جامع الاصول میں لکھا ہے کہ جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کی ابتداء ہوئی اس دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ ہی کے ہاں تھے اور اس کے بعد جس دن درد سر اور بیماری میں شدت پیدا ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت میمونہ کے ہاں تھے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے بہ ررضا ورغبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دیدی مرض الموت کی شدت بارہ دن رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ربیع الاول کے مہینے میں دوشنبہ (پیر) کے دن چاشت کے وقت ہوئی ، تاریخ کے بارے میں بعض حضرات نے ١٢ربیع الاول بیان کی ہے اور اکثر روایتوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ۔"
" میرے سینہ اور ہنسلی کے درمیان" کا مطلب یہ ہے کہ پاک روح نے جس وقت جسد اطہر سے پرواز کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے سینہ اور گردن سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ یہ بات حضرت عائشہ کے مقام محبوبیت اور کمال قرب وتعلق پردلالت کرتی ہے حضرت عائشہ کا ارشاد طرق کثیرہ سے نقل کی گئی حاکم اور ابن سعد کی اس روایت : اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت علی کی گود میں تھا " کے معارض نہیں ہے کیونکہ اول تو ان دونوں نے جن طرق کثیرہ سے اس روایت کو نقل کیا ہے ان میں سے کوئی بھی طریق سند ایسا نہیں ہے جو کسی بھی طرح کی ایک خرابی سے خالی نہ ہو دوسرے یہ کہ اگر ان طرق کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس روایت کی تاویل یہ کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک حضرت علی کی گود میں وفات سے پہلے تھا ۔
میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن کو جمع کردیا تھا " یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کی مسواک اپنے منہ میں لے کر کرنی چاہی اور اس کے سخت ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشواری ہوئی تو پھر حضرت عائشہ نے اس مسواک کو اپنے دانتوں سے نرم کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نرم کی ہوئی مسواک اپنے دانتوں پر پھیری اس طرح دونوں کے لعاب دہن حضرت عائشہ کے منہ میں بھی جمع ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں بھی پس حضرت عائشہ نے گویا یہ واضح کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس لعاب دہن کی برکت حاصل ہونا یوں توہمیشہ میرے لئے بڑی نعمت رہا لیکن عین وفات کے وقت اس لعاب دہن کی برکت کا حصول تو میرے لئے بہت بڑی نعمت تھی کیونکہ وہ وقت تمام برکتوں اور سعادتوں کا منتہائے آخر تھا یا اس جملہ کے ذریعہ حضرت عائشہ نے اس طرف اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن کی برکت مجھے اسی وقت حاصل ہوئی اس سے وقبل اور کبھی یہ نعمت مجھے حاصل نہیں ہوئی تھی ۔
" اور بھگو کر اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے " اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج مبارک پر حرارت کا بہت غلبہ تھا اور بھیگا ہوا ہاتھ چہرہ پر پھیر لینے سے ایک گونہ تسکین مل جاتی تھی لیکن اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے عجز اور عبودیت کا اظہار کا اشارہ بھی تھا اور اس سے یہ بات بھی نکلی کہ سکرات الموت کے وقت یہ عمل ہر مریض کو اختیار کرنا چاہے اور اگر خود مریض اس پر قادر نہ ہو تو تیماداروں کو چاہیئے کہ وہ اس سنت پر عمل کرتے ہوئے پانی میں ہاتھ تر کر کے مریض کے چہرے پر پھیریں یا اس کے حلق میں پانی ٹپکائیں کیونکہ اس سے کرب میں تخفیف ہوئی ہے بلکہ اگر حاجت شدید ہو تو پھر پانی ٹپکانا واجب ہوتا ہے ۔
" سکرات " دراصل " سکرۃ " کی جمع ہے جس کے معنی سختی کے ہیں اور " سکرات الموت " سے جان کنی کے وقت کی وہ سختیاں اور دشواریاں مراد ہیں جو اندورنی تپش وسوزش اور مزاج وطبیعت کو پیش آنے والی سخت تلخیوں کی صورت میں جاں بہ لب کو برداشت کرنا پڑتی ہیں اور ان سختیوں اور دشواریوں کا سامنا انبیاء اور ارباب حق کو بھی کرنا پڑتا ہے اور صرف حق تعالیٰ کا فضل وکرم ہی اس آڑے وقت میں دستگیری کرتا ہے لہٰذا سکرات الموت سے پناہ مانگنا اور جان بہ لب مریض کے لئے ان سختیوں میں آسانی کی دعا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے ۔
ایک اور روایت میں حضر عائشہ سے یہ الفاظ منقول ہیں کہ : میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونزع کے وقت دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس رکھے ہوئے پانی کے پیالہ میں اپنا ہاتھ تر کرکے چہرہ مبارک پر پھیرتے جاتے تھے اور زبان مبارک پر یہ دعا جاری تھی ، لاالہ الا اللہ ان للموت سکرات ۔ ایک روایت میں سکرات الموت کے بجائے منکرات الموت کے الفاظ ہیں ، مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ : الہٰی موت کی ان سختیوں کے وقت میری مدد فرما !مجھ کو رفیق اعلی میں شامل فرما " رفیق " اسم جنس ہے کہ اس کا اطلاق فرد واحد پر بھی ہوتا ہم اور بہت سوں پر بھی پس رفیق اعلی " سے مراد انبیاء کرام ہیں جو اعلی علیین میں پہنچ چکے ہیں ، اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں اس دعا کے یہ الفاظ بھی مذکور ہیں کہ (یعنی انبیاء کے ساتھ ) صدیقین کے ساتھ شہداء کے ساتھ اور صالحین کے ساتھ کہ وہی لوگ ) اچھے رفیق ہیں ) یا یہ کہ " رفیق اعلی " سے مراد ملاء اعلی اور عالم ملکوت یعنی آسمانوں میں رہنے والے فرشتے وغیرہ ہیں اور بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ" رفیق اعلی " سے مراد اللہ رب العزت ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر بھی " رفیق " کا اطلاق منقول ہے جیسے ایک روایت میں آیا ہے کہ : اس کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ابھی دن اور ) دنیا میں رہنا پسند کرلیں چاہے اس کے پاس (بارگاہ حق میں ) پہنچ جائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اخترت الرفیق الاعلی (میں نے رفیق اعلی کو اختیار کیا )

یہ حدیث شیئر کریں