مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 572

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مالی وصیت نہیں کی

راوی:

عن عائشة قالت : ما ترك رسول الله صلى الله عليه و سلم دينارا ولا درهما ولا شاة ولا بعيرا ولا أوصى بشيء . رواه مسلم

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد نہ کوئی دینار چھوڑا اور نہ کوئی درہم نہ کوئی بکری چھوڑی اور نہ آپ نے کسی چیز کی وصیت کی ۔" (مسلم )

تشریح :
اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از قسم مال کسی چیز کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرے سے کوئی جائیداد چھوڑ کر ہی نہیں جارہے تھے تو وصیت کی نوبت کیوں آتی رہا بنو نضیر اور فدک وغیرہ کی زمین و جائداد کا معاملہ تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ہی میں تمام مسلمانوں کے لئے کردیا تھا صرف اپنے اہل وعیال کے نفقہ کے بقدر اس میں سے لیتے تھے ۔
اس موقع پر علامہ نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں : ایک روایت میں منقول ہے کہ جب لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے یہ ذکر کیا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا وصی بنایا ، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے (حیرت سے) فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کب وصیت فرمائی تھی ؟ میں (تو آخر وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہی اور ) جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز نہیں کر گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تکیہ بنی بیٹھی رہی اور (اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں کوئی وصیت کی ہوتی اور ان کو اپنا وصی یعنی اپنے مال وجائیداد کا وارث یا نگران بنایا ہوتا تو اس کا علم مجھ سے زیادہ کس کو ہوتا ۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں غلط کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو وصی نہیں بنایا پس حدیث کے الفاظ والا اوصی بشی کا موضوع مالی وصیت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اپنے مال کے تہائی حصہ کی وصیت نہ تہائی سے زیادہ یا کم کی ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ کوئی مال تھا نہ جائیداد کہ اس کے بارے میں وصیت کرتے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حق میں کوئی وصیت کی اور نہ کسی دوسرے کے حق میں جیسا کہ شیعوں کا غلط گمان ہے ۔ جہاں تک ان احادیث صحیحہ کا تعلق ہے جن میں کتاب اللہ کے متعلق وصیت کرنے یا غیر قوموں کے ایلچیوں اور وفدوں کی خاطر داری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرنے کا ذکر ہے تو وہ دوسرا موضوع ہے۔ جو حدیث کے مذکورہ الفاظ ولاوصی بشئیکی مراد نہیں ہے بعض سیرت نگاروں نے جو یہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت اونٹ تھے ، دس اونٹنیاں تھیں اور اونٹنیوں اور اونٹوں کو نواح مدینہ میں رکھا جاتا تھا جہاں سے اونٹنیوں کا دودھ نکال کر لوگ روزانہ رات میں لایا کرتے تھے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سات بکریاں بھی تھی جن کا دودھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیا کرتے تھے ۔ تو یہ روایت تو اس حیثیت کی نہیں ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کی معارض بن سکے دوسرے اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس بات پر محمول ہوگی کہ وہ اونٹ وغیرہ صدقہ کا مال تھے اور ان کے ذریعہ جو دودھ حاصل ہوتا اس کو اصحاب صفہ اور دوسرے غیر مستطیع لوگ پیا کرتے تھے ۔

یہ حدیث شیئر کریں