مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 573

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا

راوی:

عن عمرو بن الحارث أخي جويرية قال : ما ترك رسول الله صلى الله عليه و سلم عند موته دينارا ولا درهما ولا عبدا ولا أمة ولا شيئا إلا بغلته البيضاء وسلاحه وأرضا جعلها صدقة . رواه البخاري

اور حضرت عمروا بن حارث جو (صحابی ہیں اور ) ام المؤمنین حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی ہیں وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی دینار چھوڑا ، نہ درہم چھوڑا نہ غلام چھوڑا ، نہ لونڈی چھوڑی اور نہ کوئی اور چیز چھوڑی ، البتہ آپ کا ایک سفید خچر تھا (جس کو دلدل کہا جاتا تھا اور جو مقوقس حاکم اسکندریہ نے تحفہ کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ہتھیار تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ زمین تھی اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کردیا تھا ۔" (بخاری )

تشریح :
نہ غلام چھوڑا نہ کوئی لونڈی چھوڑی ۔" کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی لونڈی اور غلام نہیں تھا جو رق یعنی بطور مملوک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہے ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض روایتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بردوں (لونڈی غلاموں ) کا جو ذکر آیا ہے وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہی میں مر گئے ہوں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کردیا ہوگا ۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ہتھیار تھے ۔" میں ہتھیار سے مراد وہ ہتھیار ہیں جو خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں رہتے تھے جیسے تلوار، نیزے ، زرہ، خود اور بھالدار عصا، یعنی برچھا ۔ اور ایک روایت میں صرف ایک زرہ کا ذکر ہے جو وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑی تھی اور وہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ حدیث میں جو حصر ہے (کہ وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف یہ چند چیزیں تھیں ) وہ اضافی ہے اور اس بات پر مبنی ہے کہ استعمال کے کپڑے اور معمولی گھریلوسامان جیسی چھوٹی موٹی چیزوں کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا اور نہ ان چیزوں کا مال وجائیداد میں شمار ہوتا ہے ، چنانچہ ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کپڑے وغیرہ چھوڑے تھے ۔
اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کردیا تھا ۔ " کے بارے میں ایک شارح نے لکھا ہے کہ جعلہا کی ضمیر تمام مذکورہ چیزوں یعنی خچر ہتھیار اور زمین کی طرف راجع ہے جب کہ بظاہر یہ متبادر ہوتا ہے کہ جعلہا کی ضمیر صرف زمین کی طرف راجع ہے نیز عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے : اس کو صدقہ کردیا تھا " کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کی منفعت کو صدقہ کردیا تھا یعنی یہاں " صدقہ وقف " کے حکم میں ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمین کو ، اس کے باقی وقائم رہنے تک اپنی حیات ہی میں صدقہ جاریہ باقیہ کردیا تھا ، اس طرح وہ زمین جب تک باقی رہے گی اس کے صدقہ کا ثواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملتا رہے گا پس یہ بات اس کے منافی نہیں ہے کہ جو باقی چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوتے ہی خود بخود صدقہ ہوگئیں ۔علامہ کرمانی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ شرح بخاری میں لکھتے ہیں (حدیث میں ۔ زمین 'کا جو ذکر ہے تو اس سے ) وادی قریٰ کی آدھی زمین خیبر کی زمین کا پانچواں حصہ ، اور بنونضیر کی زمین جائیداد کا وہ حصہ مراد ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا ، جعلہا کی ضمیرحدیث میں مذکورہ تینوں چیزوں (یعنی خچر ہتھیار اور زمین ) کی طرف راجع ہے نہ کہ زمین کی طرف اور یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ثابت ہوتی ہے کہ ہماری انبیاء علیہم السلام کی جماعت میراث نہیں چھوڑتی ہے ہمارا جو کچھ ترکہ ہوتا ہے وہ سب صدقہ ہوجاتا ہے ۔"

یہ حدیث شیئر کریں