مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر ۔ حدیث 58

دجال اور قحط سالی

راوی:

وعن أسماء بنت يزيد قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فذكر الدجال فقال إن بين يديه ثلاث سنين سنة تمسلك السماء فيها ثلث قطرها والأرض ثلث نباتها . والثانية تمسك السماء ثلثي قطرها والأرض ثلثي نباتها . والثالثة تمسك السماء قطرها كله والأرض نباتها كله . فلا يبقى ذات ظلف ولا ذات ضرس من البهائم إلا هلك وإن من أشد فتنته أنه يأتي الأعرابي فيقول أرأيت إن أحييت لك إبلك ألست تعلم أني ربك ؟ فيقول بلى فيمثل له الشيطان نحو إبله كأحسن ما يكون ضروعا وأعظمه أسنمة . قال ويأتي الرجل قد مات أخوه ومات أبوه فيقول أرأيت إن أحييت لك أباك وأخاك ألست تعلم أني ربك ؟ فيقول بلى فيمثل له الشياطين نحو أبيه ونحو أخيه . قالت ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم لحاجته ثم رجع والقوم في اهتمام وغم مما حدثهم . قالت فأخذ بلحمتي الباب فقال مهيم أسماء ؟ قلت يا رسول الله لقد خلعت أفئدتنا بذكر الدجال . قال إن يخرج وأنا حي فأنا حجيجه وإلا فإن ربي خليفتي علىكل مؤمن فقلت يا رسول الله والله إنا لنعجن عجيننا فما نخبزه حتى نجوع فكيف بالمؤمنين يومئذ ؟ قال يجزئهم ما يجزئ أهل السماء من التسبيح والتقديس . رواه أحمد .

" اور حضرت اسماء بنت یزید ابن سکن کہتی ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا ۔ " دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے تین سال ایسے ہوں گے کہ ( ان میں برکت جاتی رہے گی اور لوگوں کے معاشی حالات میں ابتری پیدا کرنے والے مختلف حالات رونما ہوں گے چنانچہ ) پہلے سال تو آسمان تہائی بارش کو اور زمین تہائی پیداوار کو روک لے کی ( یعنی اور سالوں کے معمول کے خلاف اس سال بارش ایک تہائی کم ہوگی اسی طرح زمین کی پیداوار میں بھی ایک تہائی کمی ہو جائے گی اگرچہ بارش کے پانی کے علاوہ دوسرے طریقوں سے زمین کی آبپاشی کی جائے گی ) پھر دوسرے سال آسمان دو تہائی بارش کو اور زمین دو تہائی پیداوار کو روک لے گی اور پھر تیسرے سال آسمان تمام بارش کو اور زمین اپنی تمام پیداوار کو روک لے گی " یہاں تک کہ جس وقت دجال ظاہر ہوگا تو تمام روئے زمین پر قحط پھیل چکا ہوگا صرف انسان سخت ترین معاشی وغذائی بحران میں مبتلا ہونگے بلکہ مویشوں اور چوپایوں میں بھی بھکری پھیل چکی ہوگی ) چنانچہ نہ تو کوئی گھر والا جانور باقی رہے گا اور نہ وحشی جانوروں میں سے کوئی دانت والا بلکہ سب ہلاک ہو جائیں گے اور اس کے برعکس اور وقت خزینے اور دفینے دجال کے تسلط میں ہوں گے اور غذائی ضروریات کی تکمیل اور آسائش وخوشحالی کے دوسرے ذرائع اس کے پاس ہوں گے، اس طرح لوگوں میں اپنی خدائی کا سکہ جمانے اور گمراہی کا سخت ترین فتنہ پھیلانے کے لئے وہ ان چیزوں کو استعمال کرے گا ) چنانچہ اس کا سخت ترین فتنہ یہ ہوگا کہ وہ علم ودانائی سے بے بہرہ ایک دیہاتی کے پاس آئے گا اور اس سے کہے گا کہ مجھے بتا ، اگر میں تیرے ان اونٹوں کو زندہ کر دوں (جو قحط کی وجہ سے مرگئے ہیں ) تو کیا تو یہ تسلیم کرے گا کہ میں تیرا پروردگار ہوں " دیہاتی جواب دے گا کہ ہاں میں تجھے اپنا پروردگار مان لوں گا ) تب دجال اس دیہاتی کے اونٹوں کی مانند شکل وصورت بنا کر لائے گا ( یعنی اپنے تابعدار جنات اور شیاطین کو حکم دے گا کہ وہ اونٹوں کی شکل وصورت میں اس دیہاتی کے سامنے آجائیں ، چنانچہ شیاطین اونٹ بن کر سامنے آ جائیں گے ) اور وہ اونٹ تھنوں کی درازی اور کوہانوں کی بلندی کے اعتبار سے اس کے اونٹوں سے بہتر معلوم ہوں گے " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " ( دجال کا اسی طرح کا ایک سخت ترین فتنہ یہ ہوگا کہ ) پھر وہ ایک شخص کے پاس آئے کا جس کا باپ اور بھائی مر گئے ہوں گے ۔ اور اس سے کہے گا کہ مجھے بتا ، اگر میں تیرے ( مرے ہوئے ) بھائی اور باپ کو زند کر دوں تو کیا تو تسلیم کرے گا کہ میں تیرا پروردگار ہوں ؟ وہ شخص جواب دے گا کہ ہاں ! ( میں تجھے اپنا پرودگار مان لوں گا ) تب دجال ( شیاطین کو ) اس شخص کے بھائی اور باپ کی شکل وصورت میں پیش کر دے گا ۔ " حضرت اسماء کہتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما کر کسی ضرورت سے باہر تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد مجلس میں تشریف لے آئے اس وقت حاضرین مجلس ( دجال کے یہ حالات سن کر ) فکر وغم کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے حضرت اسماء کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ( دجال کا ذکر کر کے ) ہمارے دل نکال لئے ہیں ( یعنی اس کا یہ حال سن کر ہمارے دل سخت مرعوب زدہ ہوگئے ہیں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ( دجال نکلے اور فرض کرو ) میں زندہ رہوں تو دلائل وحجت سے اس کو رفع کردوں گا ، اور اگر وہ اس وقت نکلا جب میں دنیا میں موجود نہ ہونگا تو یقینا میرا پروردگار ہر مؤمن کے لئے مرا وکیل وخلیفہ ہوگا ( یعنی اس وقت اللہ تعالیٰ ہر صاحب ایمان کا حامی ومددگار ہوگا اور اس کے فتنہ وفساد سے محفوظ رکھے گا ) " پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، بھوک کے وقت انسان کی بے صبری کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ ہم آٹا گوندھتے ہیں اور اس کی روٹی پکا کر فارغ بھی نہیں ہوتے ہیں کہ بھوک سے ہم بے چین ہو جاتے ہیں ، تو ( ایسی صورت میں اس وقت جب کہ قحط سالی پھیلی ہوئی ہوگی ، غذائی اشیاء دجال کے تسلط میں ہوں گی اور کھانے پنیے کی چیزیں صرف وہی شخص پا سکے گا جو دجال کی ابتاع کرے گا ) آخر مؤمنین کا کیا حال ہوگا ( یعنی وہ اپنی بھوک پر کسی طرح قابو پائیں گے اور انہیں صبرو اقرار کس طرح ملے گا ؟ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ " ان کے لئے وہی چیز کافی ہوگی جو آسمان والوں یعنی فرشتوں کو کافی ہوتی ہے یعنی حق تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس ۔ "

تشریح :
فاخذ بلحمتی الباب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے کے دو جانب پکڑ لئے ) میں لفظ " لحمۃ " مشکوۃ اور مصابیح کے تمام نسخوں میں ل کے زبر اور ح کے جزم کے ساتھ منقول ہے جو " جانب " کے معنی میں لیا کیا ہے لیکن صحاح وقاموس اور لغت کی دوسری کتابوں میں یہ لفظ اس معنی میں مذکور نہیں ہے چنانچہ طیبی نے کہا ہے کہ یہ اصل میں " ملجفتی الباب " ہے یعنی ح کی جگہ ج ہے اور م چونکہ مشکوۃ ومصابیح کے تمام نسخوں میں یہ لفظ اسی طرح منقول ہے جس طرح یہاں حدیث میں نقل کیا گیا ہے لہٰذہ لازم ہے کہ " بلجمتی الباب " ہی کو صحیح مانا جائے اور اس معنی کے سلسلہ میں یہ تاویل کی جائے کہ چونکہ قاموس میں لحمہ کے معنی گوشت کا ٹکڑا لکھے ہیں اس لئے اس معنی میں سے صرف ٹکڑے کو اختیار کیا جائے کہ " بلحمتی الباب " میں " دونوں ٹکڑوں " سے مراد بند ہونے کی صورت میں ) مل کر ایک ہو جاتے ہیں اور کبھی " دروازہ کھلنے کی صورت میں ' ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جاتے ہیں ! یہ تاویل یقینا اس بات سے زیادہ بہتر اور مناسب ہے کہ حدیث کے الفاظ میں کتابت کی غلطی یا روایت کے سہو کا احتمال نکالا جائے ۔
" ان کے لئے وہی چیز کافی ہوگی الخ کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس قدر صبر واستقامت اور نفس پر قابو عطا فرما دے گا کہ وہ کھانے پنیے کی احتیاج ہی محسوس نہیں کریں گے جیسا کہ فرشتے کھانے پینے کے محتاج نہیں ہوتے اور ان کی اصل غذا تسبیح ہوگی جیسا کہ فرشتوں کی غذا تسبیح وتقدیس ہے واضح رہے کہ بعض حضرات نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ان الفاظ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو ہمارے دل نکال لئے الخ " کے یہ معنی بیان کے ہیں کہ دجال سے ہمارا تو واسطہ بھی نہیں پڑا ہے ، اس کا صرف ذکر ہی سن کر ہمارا یہ عالم ہے کہ ہم روٹی پکانے کے لئے آٹا گوندھتے ہیں اور جونہی دجال کی ان باتوں کا خیال آجاتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر فرمائی ہیں اور جو ہمارا دل نکالنے لگتی ہیں تو خوف و دہشت اور فکر وصدمہ کی وجہ سے ہم روٹی پکانا چھوڑ دیتے ہیں اور بھوکے رہ جاتے ہیں ، تو آخر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اس زمانہ کے سخت ترین حالت سے دوچار ہوں گے اور جن کا واسطہ دجال سے پڑے گا " لیکن طیبی نے اس معنی کو بعید قرار دیا ہے ویسے اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو اس صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تسبیح وتقدیس کی برکت سے ان کو صبرو استقامت اور ان حالات کا مقابلہ کرنے کو قوت وطاقت عطا فرما دیگا ! نیز احتمال تو یہ ہے کہ حضرت اسماء نے یہ بات اس مجلس کے بعد کسی وقت خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کی ہوگی ویسے " فقلت " میں حرف ف بظاہر اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انہوں نے یہ بات اسی مجلس میں دجال کا ذکر سن کر کہی تھی اور ان کے الفاظ جن میں آٹا گوندھنے اور بھوک کا ذکر ہے ، یہ انہوں نے زمانہ آئندہ کے اعتبار سے کہی ۔
مشکوۃ کے اصل نسخہ میں رواہ کے بعد چھوٹی ہوئی ہے ، لیکن پھر بعد میں کسی نے احمد وابو داؤد والطیالی کے الفاظ کا الحاق کیا ہے اور بعض حضرات نے اس طرح کہا ہے رواہ احمد عن عبد الرزاق عن معمر عن قتادۃ عن شہر بن خوشب عنہا وانفردبہ عنہا

یہ حدیث شیئر کریں