مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق ۔ حدیث 590

دویمنی قبیلوں کی خوبیاں اور ان کی تعریف

راوی:

وعن أبي عامر الأشعري قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " نعم الحي الأسد والأشعرون لا يفرون في القتال ولا يغلون هم مني وأنا منهم " . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب

اور حضرت ابوعامر اشعری ( جو حضرت ابوموسیٰ اشعری کے چچا ہیں ) بیان کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اسد اور اشعریب ہت اچھے قبیلے ہیں ، یہ دونوں نہ کفار کے مقابلہ پر جنگ سے بھاگتے ہیں اور نہ مال غنیمت میں خیانت کرتے ہیں وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں ، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"

تشریح :
اسد یمن کے ایک قبیلہ کے مورث اعلی کا نام ہے اور یہ قبیلہ اسی کے نام سے مشہور ومتعارف ہوا ، اسی قبیلہ کو " ازد " اور " ازد شنوہ " بھی کہا جاتا ہے تمام انصار مدینہ اسی قبیلہ سے نسلی تعلق رکھتے تھے اشعر دراصل عمرو ابن حارثہ اسدی کا لقب تھا جو اپنے زمانہ میں یمن کا ایک ممتاز اور سربر آوردہ شخص تھا یہ بھی اپنے قبیلہ کا مورث اعلی تھا اور اس کے لقب کی نسبت سے اس کا قبیلہ " اشعری " کہلاتا تھا اس قبیلہ کے لوگوں کو " اشعریون " اور اشعرون " بھی کہا جاتا ہے ، مشہور صحابی حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کی قوم کے لوگ اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔"
وہ مجھ سے ہیں " کا مطلب یہ تھا کہ وہ میری اتباع کرنے والے اور میری سنت اور میرے اسوہ پر چلنے والے لوگ ہیں ، یا یہ کہ ان قبیلوں کے لوگ میرے دوستوں اور مدد گاروں میں سے ہیں اسی طرح " میں ان کا ہوں " کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی ان کا دوست اور ان کا مدد گار ہوں گویا ان الفاظ کے ذریعہ اس طرح اشارہ کیا گیا کہ ان قبیلوں کے مؤمن ومسلمان تقوی وپرہیز گاری کے مقام پر ہیں اور یہ بات قرآن کریم کے ان الفاظ سے ثابت ہوتی ہے کہ :
وان اولیاؤہ الا المتقون ۔
" اور ان کے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ) جو بھی دوست ورفیق ہیں سب متقی وپرہیز گار ہیں ۔"
ازد، ازد اللہ ہیں
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قبیلہ ازد کے لوگ ، روئے زمین پر اللہ کے ازد (یعنی اللہ کا شکر اور اس کے دین کے معاون ومددگار ) ہیں لوگ اس قبیلہ کو ذلیل وخوار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے برخلاف اس قبیلہ کے لوگوں کو عزت وبلندی عطا کرنا چاہتے ہیں یقینا لوگوں پر وہ زمانہ آنے والا ہے جب آدمی یہ کہتا نظر آئے گا کہ کاش میرا باپ ازدی ہوتا اور کاش میری ماں قبیلہ ازد سے ہوتی " اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔"

تشریح :
قبیلہ ازد کی نسبت اللہ کی طرف کرکے ان کو ازد اللہ کہنا یا تو ان کو اس لقب کے ساتھ متعارف کرانا تھا یا اس اعتبار سے کہ اس قبیلہ کے لوگ اللہ کے دین اور اللہ کے رسول کے معاون ومددگار ہونے کی حیثیت سے اللہ کا لشکر تھے ، ان کے فضل وشرف کو ظاہر کرنے کے لئے ان کے قبیلے کی نسبت اللہ کی طرف کی اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ ازد اللہ دراصل اسد اللہ (اللہ کے شیر ) کے معنی میں استعمال ہوا ہے مطلب یہ کہ قبیلہ ازد کے لوگ معرکہ شجاعت ودلاوری کے شیر ثابت ہوتے ہیں ۔"
" کاش میرا باپ ازدی ہوتا " مطلب یہ کہ ایک زمانہ میں اس قبیلہ کا مرتبہ ایسا وقیع ہوتا اور اس قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے باعزت وسربلند ہوں گے کہ دوسرے قبائل کے لوگ ان پر رشک کریں گے اور اس آرزو کا اظہار کرتے نظر آئیں گے کہ ہم بھی اس قبیلہ کے ہوتے ۔

یہ حدیث شیئر کریں