مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ حضرت عثمان کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 688

مخالفین عثمان کو ابن عمر کا مسکت جواب

راوی:

عن عثمان بن عبد الله بن موهب قال : جاء رجل من أهل مصر يريد حج البيت فرأى قوما جلوسا فقال : من هؤلاء القوم ؟ قالوا : هؤلاء قريش . قال فمن الشيخ فيهم ؟ قالوا : عبد الله بن عمر . قال : يا ابن عمر إني سائلك عن شيء فحدثني : هل تعلم أن عثمان فر يوم أحد ؟ قال : نعم . قال : هل تعلم أنه تغيب عن بدر ولم يشهدها ؟ قال : نعم . قال : هل تعلم أنه تغيب عن بيعة الرضوان فلم يشهدها ؟ قال : نعم ؟ قال : الله أكبر قال ابن عمر : تعال أبين لك أما فراره يوم أحد فأشهد أن الله عفا عنه وأما تغيبه عن بدر فإنه كانت تحته رقية بنت رسول الله صلى الله عليه و سلم وكانت مريضة فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن لك أجر رجل ممن شهد بدرا وسهمه " . وأما تغيبه عن بيعة الرضوان فلو كان أحد أعز ببطن مكة من عثمان لبعثه فبعث رسول الله صلى الله عليه و سلم عثمان وكانت بيعة الرضوان بعد ما ذهب عثمان إلى مكة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم بيده اليمنى : " هذه يد عثمان " فضرب بها على يده وقال : " هذه لعثمان " . فقال له ابن عمر : اذهب بها الآن معك . رواه البخاري

اور حضرت عثمان ابن عبداللہ ابن موہب (تابعی ) بیان کرتے ہیں کہ ایک مصری شخص حج بیت اللہ کے ارادہ سے (مکہ ) آیا ، اس نے (ایک جگہ ) کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ اس کو بتا یا گیا کہ یہ اکابرین قریش ہیں ، پھر اس نے پوچھا ، ان کا شیخ (یعنی علم وفضل اور شیخصیت کے اعتبار سے ان میں سب سے بڑا کون ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا : عبداللہ ابن عمر ! تب اس مصری شخص نے (حضرت عبداللہ ابن عمر کی طرف متوجہ ہو کر ) کہا : اے ابن عمر میں تجھ سے کچھ سوالات کرنا اور ان کے جواب پانا چاہتا ہوں ، کیا تم کو معلوم ہے کہ عثمان جنگ احد کے دن بھاگ کھڑے ہوئے تھے (درآنحالیکہ کفار کے مقابلے سے بھاگ پڑنا بہت برا ہے ؟ ) حضرت ابن عمر نے جواب دیا : ہاں ایسا ہی ہوا تھا (کہ اس دن عثمان مورچہ سے ہٹ گئے تھے ) پھر اس شخص نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ عثمان جنگ بدر میں غائب رہے تھے اور معرکہ میں شریک نہیں ہوئے (جس کی بنا پر ان کو وہ اعزاز حاصل نہیں ہوا جس سے اہل بدر سرفراز ہوئے ) حضرت ابن عمر نے جواب دیا : ہاں (عثمان جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے ) پھر وہ شخص بولا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ عثمان (حدیبیہ میں ) بیعت رضوان کے موقع پر غائب تھے اور اس بیعت میں شریک نہیں ہوئے ؟ حضرت ابن عمر نے کہا : ہاں (عثمان بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوسکے تھے ) اس شخص نے (جو دراصل حضرت عثمان کے بارے میں برے خیالات رکھتا تھا ، جب دیکھا کہ حضرت ابن عمر نے اس کے ایک ایک بات کی تصدیق کردی ہے تو اس حیرت اور خوشی کے اظہار کے طور پر کہ حضرت عثمان پر وارد ہونے والے اعتراضات اتنی عظیم اور معتبر ہستی کے ذریعہ ثابت ہوگئے ہیں زور دار آواز میں کہا : اللہ اکبر لیکن (جبھی ) حضرت ابن عمر نے اس سے فرمایا : ( دراصل تم احمقانہ خیالات کا شکار ہو ، جن باتوں کو تم عثمان کی تنقیص کی دلیل سمجھتے ہو اور جن کی واقعاتی تصدیق تم نے مجھ سے کرائی ہے وہ اس طرح نہیں ہے جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو ، حقائق کچھ اور ہی ہیں اور اگر ان حقائق کو تم جاننا جاہتے ہو تو) آؤ میں تمہیں وضاحت کے ساتھ بتاتا ہوں : جنگ احد کے دن عثمان کے بھاگ کھڑے ہونے کے بارے میں تو میں گواہی دیتا ہوں کہ ان کی اس بات کو اللہ تعالیٰ معاف کرچکا ہے ( اور یہ سب کو معلوم ہے کہ جو بات معاف کی جاچکی ہو اس پر عیب جوئی یا نتقیص کی بنیاد رکھنا نری حماقت ہے ) اور جنگ بدر میں عثمان جو شریک ہوئے تھے تو اس کی وجہ پیش آئی تھی کہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں تھیں اور ان دونوں وہ سخت بیمار تھیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان (جنگ بدر میں جانے سے روک دیا تھا اور ان ) سے فرمایا تھا کہ تمہیں بھی وہی ثواب اور حصہ ملے گا جو اس جنگ میں شریک ہونے والوں میں کسی ایک شخص کو مل سکتا ہے ، اب رہا بیعت رضوان میں عثمان کا شریک نہ ہونا تو (پہلے اس حقیقت کو مد نظر رکھوکہ ) اگر صحابہ میں) کوئی شخص (خاندانی طاقت اور وجاہت کے اعتبار سے ) مکہ میں عثمان سے زیادہ عزت واثر رکھنے والا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اسی کو ( اپنا نمائندہ خصوصی بنا کر اہل مکہ کے پاس ) بھیجتے (لیکن خاندانی عزت واثرات کے اعتبار سے چونکہ کوئی اور شخص مکہ والوں کی نظر میں حضرت عثمان سے زیادہ بھاری بھر کم نہیں تھا بلکہ بعض صحابہ نے تویہی کہہ کر اس مشن پر مکہ جانے سے معذرت کردی تھی کہ وہاں ہمارے ایسے حامیوں اور عزیزوں کا کوئی جتھہ نہیں ہے جو ہماری مدد کرے اور ہمارا پشت پناہ بن کر ہماری محفاظت کرے ) اس کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان کو مکہ روانہ کیا اور عثمان کے مکہ جانے کے بعد بیعت رضوان کا واقعہ پیش آیا پھر (بیعت رضوان کے وقت ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ یہ میرا ہاتھ عثمان کے ہاتھ قائم مقام ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وہ (دایاں) ہاتھ اپنے بائیں پر مار کر فرمایا : یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے " اس کے بعد حضرت ابن عمر نے اس مصری شخص سے کہا (تمہارے سوالات کے جواب میں ) اب میں نے جو کچھ کہا ہے اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔" (بخاری )

تشریح :
ان کی اس بات کو اللہ تعالیٰ معاف کرچکا ہے " حضرت ابن عمر نے ان الفاظ کے ذریعہ گویا اس آیت کی طرف اشارہ کیا :
(اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّھُمُ الشَّ يْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ) 3۔ آل عمران : 155)
" یقینا تم میں جن لوگوں نے پشت پھیر دی تھی جس روز کہ دونوں جماعتیں باہم مقابل ہوئیں اس کے سوا اور کوئی اس کے سوا اور کوئی بات نہیں کہ ان کو شیطان نے لغزش دی ان کے بعض اعمال کے سبب سے ، اور یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا واقعی اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے ہیں بڑے حلم والے ہیں ۔"
دراصل ہوا یہ تھا کہ جنگ احد کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ صحابہ کے ایک دستہ کو ، جن میں حضرت عثمان بھی تھے ، ایک بہت اہم اور نازک مورچہ پر کھڑا کردیا تھا اور ان کو حکم دیا تھا کہ اس مورچہ کو کسی حالت میں خالی نہ چھوڑاجائے اور ہر شخص اپنی جگہ پر جما رہے ۔ مگر جب دشمن کو شکست ہوگئی اور وہ بھاگنے لگا تواسلامی مجاہدین نے ان کا تعاقب شروع کیا ، دشمن کے فرار اور مجاہدین اسلام کے تعاقب کو دیکھ کر اس مورچہ پر متعین دستہ یہ سمجھا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور دشمن پوری طرح بھاگ کھڑا ہوا ہے ۔ اور پھر اس دستہ کے اکثر مجاہد بھی مورچہ کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے دشمن کا تعاقب کرنے اور اس کا مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مشغول ہوگئے ، بھاگتے ہوئے دشمن کے ہوشیار کمانڈر جو اس مورچہ کی اہمیت کو پہلے ہی تاڑے ہوئے تھے اب انہوں نے اس کو خالی دیکھا تو اپنے فوجیوں کے ساتھ تقریبا ایک میل کا چکر کاٹ کر پیچھے سے اس مورچہ پر پہنچ گئے اور وہاں مجاہدین اسلام پر گھات لگا کر ٹوٹ پڑے ، عقب سے دشمن کے اس اچانک حملہ نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا اور فتح مسلمانوں کے ہاتھ آکر چھن گئی ۔ مورچہ چھوڑ کر ہت جانا چونکہ رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی تھی اور ان مجاہدین کی کمزوری اور کوتاہی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ وتہدید فرمائی لیکن اپنے فضل وکرم سے اس کوتاہی کو معاف بھی فرمادیا ۔ پس عثمان سے عناد رکھنے والوں نے اس واقعہ کو حضرت عثمان کی تحقیروتنقیص کا ذریعہ بنایا حالانکہ اول توجب اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے درگزر فرما دیا تو اب دوسروں کو مواخذہ یا طعن کرنے کا کیا حق رہ گیا ، دوسرے اس واقعہ میں صرف حضرت عثمان ہی ذات تو ماخوذتھی نہیں ، مورچہ چھوڑنے والے سارے صحابہ اس میں شامل تھے جب کوتاہی ہوئی تو سب سے ہوئی اور پھر معافی ملی تو سب کو ملی ، لہٰذا تنہا حضرت عثمان کو نشانہ بنانا ویسے بھی غیر منصفانہ بات ہے ۔
" تمہیں بھی وہی ثواب اور حصہ ملے گا " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ جنگ بدر میں تمہارا شریک نہ ہونا چونکہ عذر اور میرے حکم کے تحت ہے اس لئے تم دنیا اور آخرت دونوں کے اعتبار سے ان لوگوں کے حکم میں سمجھے جاؤ گے جو اس جنگ میں شریک ہوں گے ، پس حضرت عثمان کا جنگ بدر میں شریک نہ ہونا ، ان کے حق میں نقصان کا موجب ہرگز نہ ہوا اور نہ اس بنیاد پر ان کی تنقیص کرنے کا حق کسی کو پہنچتا ہے ، اس جنگ میں ان عدم شرکت ایسی ہی ہے جیسے غزوہ تبوک کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنے اہل وعیال کی حفاظت کے لئے مدینہ میں چھوڑ دیا تھا اور وہ اسلامی لشکر کے ساتھ تبوک نہیں گئے تھے ، تاہم یہ بات تحقیقی طور پر معلوم نہیں ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے مال غنیمت میں حضرت عثمان کا حصہ لگا یا تھا یا نہیں ۔
حضرت رقیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے بڑی تھیں ، جنگ بدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو حکم دیا تھا کہ وہ بدر میں شامل نہ ہوں بلکہ رقیہ کی تیمارداری اور خبر گیری کے لئے مدینہ ہی میں رہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عثمان سے کس قدر تعلق خاطر تھا اور ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر راضی وخوش تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی ان کے نکاح میں دی اور پھر اس بیماری میں جب حضرت رقیہ کا انتقال ہوگیا تو اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کا بھی نکاح حضرت عثمان سے کردیا ، اسی سبب حضرت عثمان " ذوالنورین " کے لقب سے مشہور ہوئے ، اور پھر جب حضرت ام کلثوم کا بھی انتقال ہوگیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ، اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اس کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کردیتا ، ایک روایت میں جس کو طبرانی نے نقل کیا ہے ، آپ نے یہ بھی فرمایا : میں نے عثمان سے اپنی دونوں پیاری بیٹیوں کا نکاح وحی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم آنے پر کیا تھا ۔
" عثمان کو مکہ روانہ کیا " حضرت عثمان کو اس مشن پر روانہ کیا گیا تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اہل مکہ سے گفتگو کریں اور ان کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو عمرہ کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے نہ روکیں ، جن مصالح کو سامنے رکھ کر اس مشن کے لئے حضرت عثمان کا انتخاب ہوا تھا وہ درست ثابت ہوئے مکہ میں اسلام اور اہل اسلام کے معاندین ومخالفین کو حضرت عثمان کے خلاف کسی ایسے اقدام کی جرأت نہیں ہوئی جس سے بعض صحابہ نے خطرہ کا اظہار کیا تھا ، حضرت عثمان کے اعزاء اور متعلقین نے مکہ میں ان کی آمد کی اطلاع پاکر ان کا پر تپاک استقبال کیا ، سواری پر بٹھا کر ان کو اپنے آگے کیا اور جلوس کی شکل میں لے کر چلے ، ان سب لوگوں نے یہ اعلان بھی کردیا کہ عثمان ہمارے معزز مہمان اور ہماری پناہ میں ہیں ، کوئی ان سے تعرض کی جرأت نہ کرے نہ صرف یہ بلکہ ان لوگوں نے حضرت عثمان سے کہا کہ تم عمرہ کی نیت سے خانہ کعبہ کا طواف بھی کرسکتے ہو تمہیں کوئی نہیں منع کرے گا ، مگر حضرت عثمان نے ان کی اس پیش کش کو شکریہ کے ساتہ رد کردیا اور فرمایا نہیں ، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں تنہا طواف ہرگز نہیں کروں گا ۔
عثمان کے مکہ جانے کے بعد " یعنی بیعت رضوان کا واقعہ حضرت عثمان کی موجودگی میں پیش ہی نہیں آیا تھا کہ ان میں ان کی شرکت یا عدم شرکت کی بحث کھڑی ہوئی ۔صورت یہ ہوئی تھی کہ جب حضرت عثمان مکہ پہنچ گئے اور وہاں مصالحتی گفتگو شروع ہوئی تو اس نے طول کھینچا اور حضرت عثمان کی واپسی میں تاخیر ہوگئی ، اس سے مسلمانوں میں بے چینی تو پیدا ہوہی گئی تھی مستزاد یہ کہ کہیں سے یہ خبر آکر مشہور ہوگئی کہ نہ صرف حضرت عثمان کا مصالحتی مشن ناکام ہوگیا ہے بلکہ اہل مکہ اس حد تک آمادہ شر ہیں کہ وہ اپنا لشکر جمع کرکے مسلمانوں پر حملہ کی نیت سے حدیبیہ کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ایک یہ خبر بھی آئی کہ حضرت عثمان کو اہل مکہ نے قتل کردیا ہے ، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دشمنان دین کے مقابلہ کی تیاری شروع کردی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے ایک ایک مسلمانوں سے یہ بیعت لی کہ کوئی یہاں سے بھاگے گا نہیں ، بلکہ اپنی جان گنوا کر بھی دشمن کا مقابلہ کرے گا اور اگر عثمان واقعۃ قتل کردئیے ہیں تو ان کے خون کا بدلہ لے گا۔
" اس کو اپنے ساتھ لے جاؤ یعنی عثمان کے بارے میں اگر تم مجھ سے کچھ معلومات جمع کرکے لے جانا جاہتے ہو تو میری ان باتوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔ تمہارے سوالات اور میرے جواب اگر کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں تو تمہیں ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ کہ ہمیں یاان الفاظ سے حضرت ابن عمر کی مراد یہ تھی کہ : اگر تم حق کے متلاشی اور سچائی جاننے کے خواہش مند ہو تو میں نے تفصیلی طور اب جو حقائق تمہارے سامنے بیان کئے ہیں ان کو پلے باندھ لو اور دل ودماغ میں رکھ کر لے جاؤ اور عثمان کے حق میں جو برے خیالات اور بدگمانیاں رکھتے ہو ان سے اپنا ذہن پاک وصاف کرلو ۔

یہ حدیث شیئر کریں