مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 794

جس نے میرے چچا کو ستا یا اس نے مجھ کو ستا یا

راوی:

وعن عبد المطلب بن ربيعة أن العباس دخل على رسول الله صلى الله عليه و سلم مغضبا وأنا عنده فقال : " ما أغضبك ؟ " قال : يا رسول الله ما لنا ولقريش إذا تلاقوا بينهم تلاقوا بوجوه مبشرة وإذا لقونا لقونا بغير ذلك ؟ فغضب رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى احمر وجهه ثم قال : " والذي نفسي بيده لا يدخل قلب رجل الإيمان حتى يحبكم لله ولرسوله " ثم قال : " يا أيها الناس من آذى عمي فقد آذاني فإنما عم الرجل صنو أبيه " رواه الترمذي . وفي " المصابيح " عن المطلب

اور حضرت عبد المطلب بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن ) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ غصہ میں بھرے ہوئے آئے (یعنی کسی نے کوئی ایسی حرکت کر دی تھی یا کوئی اسی بات کہہ دی تھی جس سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو غصہ آ رہا ہے ؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بولے اے اللہ کے رسول ! ہمارے (یعنی بنی ہاشم ) اور (باقی) قریش کے درمیان کیا (بیگانگی ) ہے کہ جب وہ (قریش ) آپس میں ملتے ہیں تو کشادہ روئی سے ملتے ہیں اور جب ہمارے ساتھ ملتے ہیں تو اس طرح نہیں ملتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بات سنی تو ان قریش کے اس برے رویہ پر) سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ غصہ کی شدت سے آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا پھر ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوگا اگر وہ تم (اہل بیت ) کو اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دوست نہیں رکھے گا ۔" اور پھر فرمایا لوگو ! جان لو ) جس شخص نے خصوصا ) میرے چچا کو ستایا اس نے (گویا ) مجھ کو ستایا ، کیونکہ کسی کا چچا اس کے باپ کی مانند ہوتا ہے " (ترمذی ) اور مصابیح میں عبد المطلب بن ربیعہ کی جگہ ) " مطلب بن ربیعہ ہے (جبکہ صحیح عبد المطلب بن ربیعہ ہی ہے جو ترمذی نے نقل کیا ہے ۔"

تشریح
ایمان داخل نہیں ہوگا : یا تو مطلق ایمان مراد ہے اس صورت میں ارشاد گرامی کو شدید ترین وعید پر محمول کیا جائے گا یا کامل ایمان " مراد ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد سخت تاکید کے ساتھ اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ دل و دماغ کو اہل بیت کی محبت و عقیدت سے معمور کئے بغیر ایمان کامل کی دولت نصیب نہیں ہو سکتی ۔
قریش کی جو متعدد شاخیں تھیں ان میں سے " بنو ہاشم " (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ) سب سے باعزت شاخ تھی ایسے اکثر مناصب جو سماجی عزت وجاہت عطا کرتے تھے ۔ اسی شاخ کے افراد کے سپرد تھے ۔ پھر سب سے بڑا شرف یعنی نبوت و رسالت کا منصب عظمی بھی اسی شاخ کا نصیب بنا ۔ ان وجوہ سے قریش کی دوسری شاخیں بنو ہاشم سے ایک پر خاش رکھتی تھیں اور ان کو اپنا حریف قرار دیتی تھیں ۔چنانچہ ابوجہل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے یہی کہا کرتا تھا کہ مکہ اور قریش کی سرداری بنو ہاشم نے لے رکھی ہے حاجیوں کو زمزم پلانے کے اعزاز پر بنو ہاشم نے قبضہ کر رکھا ہے اگر بنو ہاشم میں نبوت و رسالت بھی آ جائے تو پھر باقی قریش کے پاس کیا رہ جائے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں