مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے مناقب کا بیان ۔ حدیث 795

حضرت عباس کی فضیلت

راوی:

وعن ابن عباس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " العباس مني وأنا منه " رواه الترمذي

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عباس مجھ سے ہیں اور میں عباس سے ہوں ۔" (ترمذی )

تشریح
عباس مجھ سے ہیں " یعنی میرے خاص قرابتیوں میں سے ہیں یا یہ کہ میرے اہل بیت میں سے ہیں علماء لکھتے ہیں کہ فضل و شرف اور شرف اور نبوت کے اعتبار سے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی اصل ہے جب کہ نسب اور چچا ہونے کے اعتبار سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اصل ہیں اور ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ ارشاد گرامی دراصل کمال محبت و تعلق ، یک جہتی و یگانگت اور اخلاص و اختلاط سے کنایہ ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بھی فرمایا تھا کہ (اے علی ) میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو۔
حضرت عباس بن عبد المطلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں ان کی ولادت واقعہ فیل سے ایک سال قبل ہوئی ان کی والدہ قبیلہ نمر بن قاسط سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ پہلی عرب خاتون ہیں جس نے کعبہ اقدس پر حریر و دیباج اور نوع بہ نوع قیمتی کپڑوں کا غلاف چڑھایا ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بچپن میں کہیں گم ہو گئے تھے اور تلاش بسیار کے بعد ہاتھ نہیں لگے تو ان کی والدہ نے منت مانی کہ اگر میرا بیٹا مل جائے گا تو میں بیت الحرام پر غلاف چڑھاؤں گی ۔چنانچہ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا سراغ لگ گیا اور وہ گھر آ گئے تو ان کی والدہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ منت پوری کی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زمانہ جاہلیت میں بھی مکہ اور قریش میں زبردست اثر و رسوخ رکھتے تھے ۔ اور ایک بڑے سردار تسلیم کئے جاتے تھے ۔" عمارۃ " اور سقایۃ" کے اہم مناصب ان کے سپرد تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے اور چچا ہونے کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر معمولی ادب احترام کرتے تھے منقول ہے کہ ایک دن کسی نے ان سے سوال کیا انت اکبر او النبی صلی اللہ علیہ وسلم (آپ بڑے ہیں یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ؟ تو انہوں نے جواب دیا ہو اکبر وانا اسن (بڑے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ہاں عمر میری زیادہ ہے : ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسلام تو بہت پہلے قبول کر لیا تھا لیکن بعض مصالح کے تحت اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرتے تھے چنانچہ جنگ بدر میں وہ بڑی کراہت کے ساتھ اور مجبوری کے تحت مشرکین مکہ کے ساتھ شریک تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین اسلام سے فرما دیا تھا کہ جس شخص کا سامنا عباس رضی اللہ عنہ سے ہو جائے وہ ان کو قتل نہ کرے کیونکہ وہ مجبوراً اس جنگ میں مشرکین مکہ کی طرف سے شریک ہیں جنگ کے خاتمہ پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی قیدیوں میں شامل ہوئے اور ابوالیسیر بن کعب بن عمر نے ان کو قید کیا ۔ پھر انہوں نے فدیہ (مالی معاوضہ ) ادا کر کے رہائی حاصل کی اور مکہ واپس آ گئے بعد میں وہاں سے باقاعدہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے ٣٦ھ میں ١٢رجب جمعہ کے دن ان کی وفات ہوئی اس وقت ان کی عمر ٨٨سال کی تھی اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے وقت کے ستر غلام آزاد کئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں