مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ مناقب کا جامع بیان ۔ حدیث 870

انصار کی فضیلت

راوی:

وعنه قال : مر أبو بكر والعباس بمجلس من مجالس الأنصار وهم يبكون فقال : ما يبكيكم ؟ قالوا : ذكرنا مجلس النبي صلى الله عليه و سلم منا فدخل أحدهما على النبي صلى الله عليه و سلم فأخبره بذلك فخرج النبي صلى الله عليه و سلم وقد عصب على رأسه حاشية برد فصعد المنبر ولم يصعده بعد ذلك اليوم . فحمد الله وأثنى عليه . ثم قال : " أوصيكم بالأنصار فإنهم كرشي وعيبتي وقد قضوا الذي عليهم وبقي الذي لهم فاقبلوا من محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم " . رواه البخاري

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کے دوران ایک دن) حضرت ابوبکر اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گذرے تو ( دیکھا کہ ) وہ اہل مجلس ہمیں یاد آگئی تھی ۔ (یہ سن کر ) ان دونوں میں ایک صاحب (یعنی یا تو حضرت ابوبکر یا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے آگاہ کیا ۔ کہ (انصار کی جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک کو یاد کر کے رو رہی ہے ) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے کہ (درد سر کو کم کرنے کے لئے ) چادر کا ایک کونہ بطور پٹی سر مبارک پر باندھ رکھا تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھے اور اس دن کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر چڑھنا نصیب نہیں ہوا ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی کامل ثنا بیان کی اور پھر فرمایا : (اے مہاجرو) میں تم کو انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں (کہ ان کے ساتھ رعایت وحمایت اور سلوک کا رویہ اختیار کئے رہنا ) کیونکہ انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان پر جو حق تھا اس کو انہوں نے ادا کردیا اور جو کچھ ان کا ہے (یعنی اجروثواب اور سرفرازی جنت ) وہ اللہ کے ہاں باقی ہے پس ان کے نیک لوگوں کا عذر (کہ جو اپنی لغزش اور کوتاہی کے سلسلہ میں بیان کریں ) قبول کرو اور ان کے برے لوگوں برے کاموں سے (کہ جن کا عذر پیش کرنے سے وہ عاجز ہوں ) درگزر کرو " (بخاری )

تشریح :
کرش ( اور ایک نسخہ کے مطابق کرش ) اصل میں چوپایوں (یعنی بیل اور گائے وغیرہ ) کے کوٹھے یا اوجھ کو کہتے ہیں جو آدمیوں کے لئے معدہ کہلاتا ہے اور " عیبہ " جامہ دانی یعنی بغچی یاگٹھری کو کہتے ہیں ۔ پس " انصار میرا معدہ اور میری گٹھری ہیں " سے مراد یہ ہے کہ انصار میرے راز دار ، ولی دوست اور تمام امور میں میرے محرم اسرار اور معتمد علیہ ہیں ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو ان چیزوں سے مشابہت اس بناء پر دی کہ جیسے اوجھ یا معدہ میں چارہ اور کھانا جا کر جمع ہو جاتا ہے ، اور جامہ دانی میں کپڑے محفوظ رکھے جاتے ہیں ، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی راز کی باتیں اور امانتیں انصار کے پاس رہتی ہیں ۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ لغت میں " کرش " کے ایک اور معنی عیال ، چھوٹے بچوں اور جماعت کے بھی آتے ہیں لہٰذا حدیث میں مذکورہ " کرش " کا لفظ اس معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے ۔ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہوگا کہ انصار میری جماعت میرے اصحاب ورفیق اور میرے لئے میرے عیال اور میرے چھوٹے بچوں کی مانند ہیں ۔ جن پر میری شفقت ومہربانی ہے ۔ اور جن کا میں غمخوار ہوں ۔
" ان پر جو حق تھا " میں " حق " سے مراد جان ومال سے امداد ومعاونت اور خیرخواہی ہے ۔ اس جملہ کا حاصل یہ ہے کہ انصار کے نمائندوں نے مدینہ سے مکہ پہنچ کر لیلۃ العقبہ میں میرے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرتے ہوئے جو وعدہ اور جو عہد کیا تھا کہ اللہ کی راہ میں جان مال سے ہرطرح میری مدد کریں گے ۔ اور اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت کا وعدہ کیا تھا ۔ جیسا کہ اس موقع پر نازل ہونے والی اس آیت (اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ) 9۔ التوبہ : 111) سے واضح ہے ، تو اپنے اس عہد کو انصار نے کماحقہ پورا کردیا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں