مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 981

بعد کے زمانہ کے اہل ایمان کی فضیلت

راوی:

وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " إن من أشد أمتي لي حبا ناسا يكونون بعدي يود أحدهم لو رآني بأهله وماله " . رواه مسلم

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حقیقت تو یہ ہے کہ میری امت میں مجھ سے نہایت شدید اور نہایت اچھی محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میری وفات کے بعد پیدا ہوں گے ان میں کوئی تو یہ آ رزو کرے گا کہ کاش وہ مجھ کو دیکھ لے اپنے اہل وعیال اور اپنا مال وا ثاثہ سب کچھ مجھ پر قربان کر دے ۔ " (مسلم )

تشریح :
یعنی میرے تئیں شدت محبت اس کو اس آرزو میں مبتلا رکھے گی کہ اگر میری زیارت اور میرے دیدار کا موقع اس کو نصیب ہو جائے تو وہ مجھ تک پہنچے اور اپنے اہل وعیال ، اپنا گھر بار اپنا مال و اثاثہ سب کچھ مجھ پر فدا کر دے ، واضح ہو کہ اس حدیث سے اور اس جیسی دوسری حدیثوں سے بظاہر یہ مفہوم نکلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد ہوسکتا ہے کہ بعضے لوگ ایسے اس امت میں پیدا ہوں جو فضیلت میں صحابہ کرام کے برابر ہوں یا ان سے بھی افضل ہوں چنانچہ محدثین میں کی ایک مشہور شخصیت علام ابن عبد البر کا رجحان اسی طرف ہے انہوں نے اسی طرح کی حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ اس کا ذکر شیخ ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی صواعق محرقہ میں موجود ہے، لیکن جمہور علماء کا اجماع و اتفاق اسی پر ہے کہ امت کے افضل ترین افراد صحابہ کرام ہی ہیں کوئی بھی غیر صحابی خواہ دین و شریعت علم و معرفت ، و لایت وبزرگی اور تقوی وتقدس میں کتنا ہی اونچا مقام رکھتا ہو ، صحابی کی منزل اور اس کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا ، ان جمہور علماء نے ان احادیث کے بارہ میں کہ جن سے ابن عبد البر نے استدلال کیا ہے کہا ہے کہ ان احادیث کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت کی جاسکتی ہے وہ کسی غیر صحابی کی کسی ایک گوشہ سے جزوی فضیلت ہے لیکن جہاں تک کلی فضیلت کا تعلق ہے ، کہ جو کثرت ثواب سے عبارت ہے تو وہ صرف صحابہ کے لئے ہے ۔ ان علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اس گفتگو میں صحابہ سے مراد وہ خاص الخاص صحابہ ہیں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ومعیت میں طویل عرصہ تک رہنے کا شرف نصیب ہوا ہو ، جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ اکتساب علم وفیض کیا ہو ، اور جو آنحضور صلی علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئے ہوں، رہے وہ عام العوام صحابہ جن کو ایک آ دھ ہی مرتبہ زیارت نبوی صلی علیہ وسلم کا موقع ملا ہو اور بعض تو ایسے بھی ہیں جن کو پوری عمر میں بس ایک ہی مر تبہ چہرہ اقدس کا دیدار نصیب ہوا تو ان کا مسئلہ محل توقف وتردد اور محل نظر ہے، لیکن حق یہ کہ آنحضرت صلی علیہ وسلم کی صحابیت کا وہ شرف و فضل جو کسی بھی صحابی کو کسی بھی غیر صحابی سے افضل و برتر مقام عطا کرتا ہے، ہر صحابی کو حاصل ہے ، اگرچہ کسی صحابی کو صرف ایک ہی بار آنحضرت صلی علیہ وسلم کے چہرہ اقدس کے دیدار کا موقع ملا ہو اور اس فضل وشرف میں تو کوئی بھی کسی صحابی کا ہمسر و شریک نہیں ہو سکتا، ہا علمی وعملی فضیلت میں گفتگو کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے لیکن اس جہت سے بھی زیادہ بحث کی بجائے یہی کہنا اولی ہے کہ صحابہ پوری امت میں علی الا طلاق افضل واشرف ہیں ۔

یہ حدیث شیئر کریں