مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب ۔ حدیث 985

ایمان بالغیب کے اعتبار سے تابعین کی فضیلت

راوی:

وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أي الخلق أعجب إليكم إيمانا ؟ " قالوا : فالنبيون
قال : " ومالهم لا يؤمنون والوحي ينزل عليهم ؟ " قالوا : فنحن . قال : " ومالكم لا تؤمنون وأنا بين أظهركم ؟ " قال : فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن أعجب الخلق إلي إيمانا لقوم يكونون من بعدي يجدون صحفا فيها كتاب يؤمنون بما فيها "

" اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کر تے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک دن صحابہ سے ) پو چھا !بتاؤ ، ایمان کے اعتبار سے تم مخلوق میں کس کو زیادہ پسند کر تے ہو ، یعنی اللہ کی مخلوقات میں کس مخلوق کے ایمان کو تم بہت قوی اور بہت اچھا سمجھتے ہو ؟ بعض صحابہ نے جواب دیا، ہم تو فرشتوں کے ایمان کو بہت اچھا اور قوی سمجھتے ہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فرشتوں کے ایمان میں کیا عجوبہ پن ہے ۔ وہ تو اپنے پروردگار کے پاس ہی رہتے ہیں یعنی فرشتے مقرب بارگاہ الٰہی ہیں اور عالم جبروت کے عجائب و غرائب کا ہمہ وقت مشاہدہ کر تے رہتے ہیں اگر ان کا ایمان قوی ہے تو اس میں کیا عجیب و غریب بات ہے ۔ انہی صحابہ نے یا دوسرے بعض صحابہ نے عرض کیا ! تو پھر وہ پیغمبر ہیں کہ ہمارے نزدیک ان کا ایمان بہت اچھا ہے اور قوی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بھلا وہ شک و شبہ سے دور اور قوی ایمان کے حامل کیوں نہیں ہوں گے ، آسمان سے وحی اترتی ہی ان کے اوپر ہے ، اب صحابہ نے کہا ! تو پھر ہم لوگ ہیں ( جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں، لہذا کہنا چاہئے کہ ہمارا ایمان اچھا اور قوی ہے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے ہی ایمان میں کیا عجوبہ پن ہے جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! حقیقت یہ ہے کہ میرے نزدیک ایمان کے اعتبار سے تمام مخلوق میں بڑے اچھے لوگ وہ ہیں جو میرے ( زمانہ حیات ) کے بعد پیدا ہوں گے ( یعنی تابعین اور ان کی اتباع کرنے والے کہ جو نسل در نسل قیامت تک اس درمیان میں آتے رہیں گے وہ لوگ احکام دین کے مجموعہ مصحف یعنی قرآن پاک پائیں گے اور اس میں جو کچھ مذکور ہے سب پر ایمان لائیں گے ۔ "

تشریح :
جواب دینے والے صحابہ نے بہت اچھے اور بہت قوی ایمان کے اعتبار سے جو پہلے فرشتے کا ذکر کیا اور پھر انبیاء پر فرشتوں کی فضیلت لا زم نہیں آتی ۔ اللہ کے ہاں کثرت ثواب کے اعتبار سے جو فضیلت انبیاء کو حاصل ہے وہ اپنی جگہ مسلم ہے ۔ اس میں شک وشبہ نہیں ۔
آسمان سے وحی اترتی ہی ان کے اوپر ہے ۔ ۔ ۔ یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کو تو ایمان کا اور سب سے اچھا اور سب سے قوی ایمان کا حامل ہونا ہی چاہئے ۔ کیونکہ اس دنیا میں ایمان اور دین وشر یعت کے اتر نے کا اصل ذریعہ " وحی " ہے اور وحی انبیاء ہی پر اترتی ہے فرشتہ روح الامین ( جبرائیل ) آسمان سے آتا ہے اور حق تعالیٰ کا پیغام براہ راست ان کو پہنچاتا ہے ۔ وہ فرشتوں کو اپنی آ نکھوں سے دیکھتے ہیں اور ان کے انوار کا مشاہدہ کر تے ہیں ۔ واضح ہو کہ لغت میں " وحی " کے معنی ہیں ، پیغام ، دل میں پو شیدہ بات ڈالنا ہر وہ چیز جو دوسرے کو معلوم ہونے کے لئے تم پیش کرو اور آواز اور اصطلاح شرع میں " وحی" اللہ کے اس پیغام کو کہتے ہیں جو جبرائیل امین علیہ السلام پیغمبروں کے پاس لائیں ۔
" جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ۔ ۔ ۔ " اور تم وحی اور ایمان کے آ ثار و انوار کا مشاہدہ کر تے ہو ، نبوت کی نشانیاں اور معجزے دیکھتے ہو ، میرے جمال باکمال سے انوار حق کا دیدار کر تے ہو ، میری صحبت وہم نشینی کے ذر یعہ تم میں اسرار حقیقت سرایت کرتے ہیں اور میرے باطنی تصرف اور میرے ارشاد واقوال سے تمہارے ظاہر وباطن میں کمالات و کرامات پیدا ہو تے ہیں ۔ ایسی صورت میں اللہ پر ایمان لا نے ، اللہ کے اتارے ہوئے دین و شریعت کے احکام میں یقین رکھنے اور اللہ کے بتائے ہوئے اوا امر و نواہی کو ماننے میں تمہارے لئے شک وتردد کا کوئی موقع ہی نہیں ہے۔
" سب پر ایمان لائیں گے ۔ ۔ ۔ " یعنی ان کا ایمان بالغیب ہوگا، نہ انہوں نے اپنے نبی کو دیکھا ہوگا ، نہ نبی کی صحبت کے ذریعہ انوار حق کا مشاہدہ کیا ہوگا ، اور نہ نبوت کے آ ثار و معجزات کو اپنی نظروں کے سا منے پایا ہوگا ۔ وہ اپنے بڑوں (صحابہ ) سے اخبار و آ ثار کی صورت میں جو کچھ سنیں گے اسی پر اعتماد و یقین کر کے اللہ پر، اللہ کے رسول پر ، اللہ کی کتاب پر اور اللہ کے اتارے ہوئے دین پر ایمان لائیں گے اور اس ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو یہ فرمایا ہے کہ یو منون بالغیب تو اس کی مراد بھی بعض تفسیری جہات سے یہی ہے اور اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں نے ان کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے ایمان کا ذکر کیا تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : حق تو یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت و حیثیت ، ان کی دعوت اسلامی اور ان کا سارا معاملہ ہر اس شخص پر پوری طرح روشن اور واضح تھا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت وہم نشینی کا شرف پایا، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، کسی ایمان والے کا ایمان ایمان بالغیب سے افضل نہیں اور پھر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہی آیت یو منون بالغیب پڑھی ۔
بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے متصل ہونے کے سبب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت صحابہ کی رفاقت و صحبت پانے کی وجہ سے اگرچہ تابعین پر بھی آثار و انوار حقانیت ہو یدا ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صدق وا ضح تھا لیکن اس کے باوجود یہی کہا جائے گا کہ ، ازدیدہ بسے فرق بود تا بشنیدہ۔ اور حاصل یہ کہ اگرچہ صحابہ کا ایمان بھی بالغیب تھا لیکن ان کا ایمان بالغیب انہی چیزوں میں تھا جن پر ایمان لازم فرض ہے ، جیسے اللہ کی ذات، ملائکہ اور امور آخرت وغیرہ جب کہ اور بہت سی چیزیں ان کی آنکھوں دیکھی ہوئی تھیں ان کے مشاہدہ میں آئیں ۔ ان کے برخلاف تابعین اور ان کے بعد اہل ایمان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا سارا ایمان بالغیب ہے کوئی چیز ان کی آ نکھوں دیکھی ہوئی نہیں ہے ، کوئی چیز ان کے مشاہدہ میں نہیں آئی پس اس اعتبار سے ان کے ایمان کو افضل اور پسندیدہ تر فرمایا گیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں