مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ رونے اور ڈرنے کا بیان ۔ حدیث 1250

نیت کے اخلاص وعدم اخلاص کا اثر

راوی:

وعن أنس أن النبي صلى الله عليه وسلم قال من كانت نيته طلب الآخرة جعل الله غناه في قلبه وجمع له شمله وأتته الدنيا وهي راغمة ومن كانت نيته طلب الدنيا جعل الله الفقر بين عينيه وشتت عليه أمره ولا يأتيه منها إلا ما كتب له . رواه الترمذي ورواه أحمد .
والدارمي عن أبان عن زيد بن ثابت .

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جس شخص کی نیت محض آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی اور اس کی پریشانیوں کو جمع کر کے اطمینان خاطر بخشتا ہے نیز اس کے پاس دنیا آتی ہے لیکن اس کی نظر میں اس دنیا کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ یعنی کسی بھی علمی یا عملی کار خیر کو اختیار کرنے کے سلسلے میں جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، محض رضائے مولیٰ اور ثواب آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو قدر کفایت پر قانع و صابر بتا کر اور زیادہ طلبی کی محنت ومشقت کے کشت ورنج سے بچا کر قلبی غنا عطا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس بات سے بے نیاز اور مستغنی ہو جاتا ہے کہ ریاء کاری کے ذریعہ لوگوں سے مال وجاہ اور عزت و منفعت حاصل کر کے آخرت کا نقصان وخسران مول لے۔ نیز اللہ تعالیٰ حصول معاش اور ضروریات زندگی کی تکمیل کے سلسلے میں ان کی پریشانیوں، الجھنوں اور ذہنی انتشار وتفکرات کو سمیٹ کر خاطر جمعی میں تبدیل کر دیتا ہے، بایں طور کہ اس کو ایسی جگہوں اور ایسے ذرائع سے اسباب معیشت مہیا فرما دیتا ہے جن کے بارے میں اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا، اور اس کے معاملات کو اس طرح استوار فرما دیتا ہے کہ اس کا وہم وگمان بھی اس کو نہیں ہوتا، اور پھر ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر یہ ہے ہوتا ہے کہ اس شخص کی نظر میں دنیا اور دنیا بھر کی نعمتیں اور لذتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ، وہ دنیا سے دامن بچاتا ہے اور دنیا اس کے قدموں میں کھنچی چلی آتی ہے، اس کی ضروریات زندگی اور معیشت کے وہ اسباب جو اس کے لئے مقدر ہیں، بغیر کسی محنت ومشقت کے بغیر کسی سعی وکوشش کے ، اور بغیر کسی ذلت وخواری کے اس کو حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ اور جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، دنیا کی طلب ہو یعنی جس شخص پر دنیا اس حد تک سوار ہو جائے کہ وہ اعمال خیر کو بھی محض دنیا کے حصول کا واسطہ بنانا شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کا فقر واحتیاج ، اس کی آنکھوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت وخواری میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ اپنے فقر و افلاس اور محتاجگی کو نظر آنے والی چیز کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے۔ اور اس کو ہر معاملہ میں پراگندہ خاطر اور ذہنی انتشار وتفکرات کا شکار بنا دیتا ہے نیز دنیا بھی اس کو صرف اسی قدر ملتی ہے جتنا کہ اللہ نے اس کے لئے مقدر کر دیا ہے (ترمذی) نیز احمد اور دارمی نے اس روایت کو ابان سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اعمال کے نتائج و آثار ہونے کا مدار نیت پر ہے ، جس شخص کے پیش نظر صرف آخرت کا مفاد ہوتا ہے اور جو اپنے اعمال کے تئیں مخلص وصادق ہوتا ہے، وہ آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں کا مستحق تو ہو ہی جاتا ہے، اس دنیا میں بھی اس کو اپنے تمام معاملات زندگی میں اطمینان وعافیت اور خاطر جمعی کی دولت حاصل رہتی ہے، نیز اس کو اس کا رزق نہایت آسانی اور آسودگی کے ساتھ پہنچتا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص محض دنیا کی طلب وچاہ رکھتا ہے اور اپنے اعمال کو وسیلہ آخرت بنانے کے بجائے دنیاوی مال وزر اور دنیاوی نعمتوں کا وسیلہ و ذریعہ بناتا ہے اس کو آخرت میں تو اس کی سزا بھگتنی ہوگی، اس دنیا میں بھی اس پر اس برائی کا یہ وبال پڑتا ہے کہ وہ خاطر جمع اور اطمینان وسکون کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے، ہر وقت طرح طرح کی پریشانیوں اور مختلف تفکرات کی وجہ سے حیران وسرگردان رہتا ہے، نیز اس کو وہ رزق تو ضرور ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہے مگر اس کے حصول کے لئے بھی اس کو نہایت محنت ومشقت اور پریشانی وکشت برداشت کرنا پڑتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں