صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ تفاسیر کا بیان ۔ حدیث 2052

تفسیر سورت الفتح اور مجاہد نے کہا کہ سیماھم فی وجوھہم میں سیما سے مراد چہرے کی نرمی اور ہئیت اور منصور نے بواسطہ مجاہد نقل کیا کہ اس سے مراد تواضع ہے شطأہ اپنی سوئی اپنی کلی فاستغلظ موٹا ہوا۔ سوق ساق کی جمع یعنی شاخ جو درختوں کو اٹھانے والی ہو اور دائرۃ السوء رجل السوء کی طرح ہے یعنی بری گردش دائر السوء سے مراد عذاب ہے تعزروہ تم اس کی مدد کرو شطہ بالی کا پٹھا کہ ایک دانہ سے دس آٹھ یا سات بالیان اگتی ہیں چنانچہ ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول سے یہی مراد ہے کہ فازرہ یعنی اس کو تقویت پہنچائی اور اگر وہ ایک ہوئی تو شاخ پر قائم نہ رہ سکتی یہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مثال کے طور پر بیان فرمایا ہے اس لئے کہ آپ تنہا نکلے پھر آپ کے اصحاب کے ذریعہ آپ کو قوت پہنچائی جس طرح ایک دانہ کو اس کے ذریعہ قوت بہم پہنچاتا ہے۔ جو اس سے اگتی ہے۔ (آیت) بے شک ہم نے فتح دی آپ کو ظاہر فتح۔

راوی: احمد بن اسحاق سلمی، یعلی، عبدالعزیز بن سیاہ

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّلَمِيُّ حَدَّثَنَا يَعْلَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ أَسْأَلُهُ فَقَالَ كُنَّا بِصِفِّينَ فَقَالَ رَجُلٌ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ فَقَالَ عَلِيٌّ نَعَمْ فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي الصُّلْحَ الَّذِي كَانَ بَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ فَقَالَ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ قَالَ بَلَى قَالَ فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى جَاءَ أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ قَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ

احمد بن اسحاق سلمی، یعلی، عبدالعزیز بن سیاہ، حبیب بن ثابت سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں ابووائل کے پاس (کچھ) پوچھنے کے لئے آیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ہم جنگ صفین میں شریک تھے تو ایک شخص نے کہا کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو اللہ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں تو حضرت علی نے فرمایا ہاں! سہل بن حنیف نے کہا تم اپنے آپ کو متھم کرو (یعنی جنگ کی رائے مناسب نہیں) ہم نے یوم حدیبیہ دیکھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی۔ اگر ہم لوگ یہ لڑائی دیکھتے تو ضرور لڑتے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور عرض کیا، کیا ہم لوگ حق پر نہیں ہیں اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول دوزخ میں نہیں جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ پھر کیوں ہم اپنے دین میں ذلت کو آنے دیں اور آئے ہوئے مسلمانوں کو واپس کردیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان (اس قسم کی صلح) کا حکم نہیں فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی ضائع نہ کرے گا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصہ کی حالت میں واپس ہوئے اور انہیں صبر نہ ہوا۔ حتیٰ کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! کیا ہم حق پر اور (مشرکین) باطل پر نہیں ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اے ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو کبھی ضائع نہ کرے گا چنانچہ سورت فتح نازل ہوئی۔

یہ حدیث شیئر کریں