صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ احکام کا بیان ۔ حدیث 2082

جھگڑنے والوں کے لئے قاضی کی گواہی حاکم کے سامنے ہونی چاہیے،خواہ قاضی ہونے سے پہلے گواہ ہویا گفتگو ہونے کے بعد، قاضی شریح سے ایک آدمی نے اپنی گواہی دینے کے لئے کہا جس شخص کا مقدمہ انہیں کے پاس تھا انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ امیر کے پاس چلو میں تمہاری گواہی دوں گا، اور عکرمہ نے کہا کہ حضرت عمر نے عبدالرحمن بن عوف سے کہا کہ اگر تم کسی آدمی کو زنا یا چوری کرتا دیکھو اور تم امیر ہو تو کیا تم محض اپنے دیکھنے پر اس کو حد لگادو گے، عبدالرحمن نے کہا تمہاری گواہی ایک عام مسلمان جیسی ہے ، حضرت عمر نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو، پھر حضرت عمرنے کہا کہ اگر میں یہ خوف نہ کر تاکہ لوگ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں زیادتی کی ہے تو رجم کرنے والی آیت کو اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا، اور ماعز نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے چار مرتبہ اقرار کیا تو آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، اور یہ کسی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین کو گواہ بنایا، حماد نے کہا کہ جب زانی ایک بار اقرار کرے تو اسے رجم کردیاجائے اور حکم نے کہا کہ چار بارا قرار کرے توا سے رجم کیاجائے۔

راوی: قتیبہ , لیث , یحیی , عمر بن کثیر , ابومحمد (ابوقتادہ کہ مولی)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَی عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِيرٍ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَی أَبِي قَتَادَةَ أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ مَنْ لَهُ بَيِّنَةٌ عَلَی قَتِيلٍ قَتَلَهُ فَلَهُ سَلَبُهُ فَقُمْتُ لِأَلْتَمِسَ بَيِّنَةً عَلَی قَتِيلِي فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَشْهَدُ لِي فَجَلَسْتُ ثُمَّ بَدَا لِي فَذَکَرْتُ أَمْرَهُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَائِهِ سِلَاحُ هَذَا الْقَتِيلِ الَّذِي يَذْکُرُ عِنْدِي قَالَ فَأَرْضِهِ مِنْهُ فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ کَلَّا لَا يُعْطِهِ أُصَيْبِغَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعَ أَسَدًا مِنْ أُسْدِ اللَّهِ يُقَاتِلُ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ فَاشْتَرَيْتُ مِنْهُ خِرَافًا فَکَانَ أَوَّلَ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ قَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ اللَّيْثِ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَدَّاهُ إِلَيَّ وَقَالَ أَهْلُ الْحِجَازِ الْحَاکِمُ لَا يَقْضِي بِعِلْمِهِ شَهِدَ بِذَلِکَ فِي وِلَايَتِهِ أَوْ قَبْلَهَا وَلَوْ أَقَرَّ خَصْمٌ عِنْدَهُ لِآخَرَ بِحَقٍّ فِي مَجْلِسِ الْقَضَائِ فَإِنَّهُ لَا يَقْضِي عَلَيْهِ فِي قَوْلِ بَعْضِهِمْ حَتَّی يَدْعُوَ بِشَاهِدَيْنِ فَيُحْضِرَهُمَا إِقْرَارَهُ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِرَاقِ مَا سَمِعَ أَوْ رَآهُ فِي مَجْلِسِ الْقَضَائِ قَضَی بِهِ وَمَا کَانَ فِي غَيْرِهِ لَمْ يَقْضِ إِلَّا بِشَاهِدَيْنِ وَقَالَ آخَرُونَ مِنْهُمْ بَلْ يَقْضِي بِهِ لِأَنَّهُ مُؤْتَمَنٌ وَإِنَّمَا يُرَادُ مِنْ الشَّهَادَةِ مَعْرِفَةُ الْحَقِّ فَعِلْمُهُ أَکْثَرُ مِنْ الشَّهَادَةِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ يَقْضِي بِعِلْمِهِ فِي الْأَمْوَالِ وَلَا يَقْضِي فِي غَيْرِهَا وَقَالَ الْقَاسِمُ لَا يَنْبَغِي لِلْحَاکِمِ أَنْ يُمْضِيَ قَضَائً بِعِلْمِهِ دُونَ عِلْمِ غَيْرِهِ مَعَ أَنَّ عِلْمَهُ أَکْثَرُ مِنْ شَهَادَةِ غَيْرِهِ وَلَکِنَّ فِيهِ تَعَرُّضًا لِتُهَمَةِ نَفْسِهِ عِنْدَ الْمُسْلِمِينَ وَإِيقَاعًا لَهُمْ فِي الظُّنُونِ وَقَدْ کَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظَّنَّ فَقَالَ إِنَّمَا هَذِهِ صَفِيَّةُ

قتیبہ، لیث، یحیی ، عمر بن کثیر، ابومحمد (ابوقتادہ کہ مولی) سے روایت کرتے ہیں ابوقتادہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حنین کے دن فرمایا کہ جس شخص نے کسی کو قتل کیا اور اس کے پاس گواہ ہو تو اس مقتول کا مال اس کو ملے گا، ابوقتادہ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا تاکہ اپنے مقتول پر کوئی گواہ پیش کروں لیکن میں نے کسی کو نہیں پایا جو گواہی دے، چنانچہ میں بیٹھ گیا پھر مجھے خیال ہوا کہ میں نے اس کا حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان کیا ان بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ جس مقتول کا ذکر کر رہے ہیں اس کا ہتھیار تو میرے پاس ہے، آپ ان کو مجھ سے راضی کردیں، حضرت ابوبکر نے کہا کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا، کہ آپ قریش کے ایک بدرنگ کو دے دیں گے اور اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر کو چھوڑ دیں گے، جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کرتا ہے ابوقتادہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا تو انہوں نے وہ ہتھیار مجھے دیدئیے، میں نے اس سے باغ خرید لیا، وہ سب سے پہلا مال تھا جو میں نے حاصل کیا، عبداللہ ، لیث سے روایت کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور وہ مجھے دلایا اور اہل حجاز کا قول ہے کہ حاکم اپنے علم کی بناء پر فیصلہ نہ کرے خواہ وہ قاضی بننے کے بعد یا اس سے پہلے اس کا گواہ ہواور اگرفریق مخالف اس کے نزدیک کسی کے حق کا اقرار مجلس قضا میں کرے تو بعض حجازیوں کے نزدیک اس پر فیصلہ نہ کیا جائے گا جب تک دو گواہوں کو بلا کر ان کی موجودگی میں اقرار نہ کیا جائے اور بعض عراقیوں کا قول ہے کہ مجلس قضاء میں کچھ دیکھے یا سنے تو اس پر فیصلہ کردے، اس مجلس کے علاوہ میں کوئی بات دیکھے تو دو گواہوں کے بغیر فیصلہ نہ کرے اور انہیں میں سے بعض کا قول ہے کہ وہ فیصلہ کرے اس لئے کہ وہ امانت دار ہے اور شہادت کا مقصد اصل حقیقت کا جاننا ہے، اور اس کے علم کا مرتبہ شہادت سے زیادہ ہے بعض عراقیوں کا قول ہے کہ مال میں اپنے علم کی بناء پر فیصلہ کردے، اس کے علاوہ میں نہیں، قاسم کا قول ہے کہ حاکم کے لئے مناسب نہیں کہ اپنے علم سے بغیر گواہوں کے فیصلہ کردے باوجود اس کے کہ اس کا علم دوسروں کی گواہی سے زیادہ بلند مرتبہ رکھتا ہے، لیکن اس سے مسلمانوں کے دل میں تہمت کا خیال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے اس کے باعث گمان میں پڑجانے کا خطرہ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظن کو مکروہ سمجھا ہے، چنانچہ انہوں نے (ایک بار جب کہ حضرت صفیہ کے ساتھ تھے) فرمایا کہ یہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں۔

Narrated Abu Qatada:
Allah's Apostle said on the Day of (the battle of) Hunain, "Whoever has killed an infidel and has a proof or a witness for it, then the salb (arms and belongings of that deceased) will be for him." I stood up to seek a witness to testify that I had killed an infidel but I could not find any witness and then sat down. Then I thought that I should mention the case to Allah's Apostle I (and when I did so) a man from those who were sitting with him said, "The arms of the killed person he has mentioned, are with me, so please satisfy him on my behalf." Abu Bakr said, "No, he will not give the arms to a bird of Quraish and deprive one of Allah's lions of it who fights for the cause of Allah and His Apostle." Allah's Apostle I stood up and gave it to me, and I bought a garden with its price, and that was my first property which I owned through the war booty.
The people of Hijaz said, "A judge should not pass a judgment according to his knowledge, whether he was a witness at the time he was the judge or before that" And if a litigant gives a confession in favor of his opponent in the court, in the opinion of some scholars, the judge should not pass a judgment against him till the latter calls two witnesses to witness his confession. And some people of Iraq said, "A judge can pass a judgement according to what he hears or witnesses (the litigant's confession) in the court itself, but if the confession takes place outside the court, he should not pass the judgment unless two witnesses witness the confession." Some of them said, "A judge can pass a judgement depending on his knowledge of the case as he is trust-worthy, and that a witness is Required just to reveal the truth. The judge's knowledge is more than the witness." Some said, "A judge can judge according to his knowledge only in cases involving property, but in other cases he cannot." Al-Qasim said, "A judge ought not to pass a judgment depending on his knowledge if other people do not know what he knows, although his knowledge is more than the witness of somebody else because he might expose himself to suspicion by the Muslims and cause the Muslims to have unreasonable doubt. "

یہ حدیث شیئر کریں