صحیح بخاری ۔ جلد سوم ۔ ذبیحوں اور شکار کا بیان ۔ حدیث 472

اللہ تعالیٰ کا قول کہ دریا کا شکار تمہارے لئے حلال ہے اور حضرت عمر نے فرمایا کہ صید سے مراد وہ ہے جو جال سے شکار کیا جائے اور طعام سے مراد وہ ہے جس کو دریا پھینک دے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ طافی (دریا میں خود مر کر تیرنے والا) حلال ہے، اور ابن عباس نے فرمایا کہ طعام سے مراد دریا میں مرا ہوا جانور ہے مگر وہ جو تجھے مکروہ معلوم ہو اور جریث کو یہودی نہیں کھاتے، لیکن ہم کھاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی شریح نے فرمایا کہ دریا کی تمام چیزیں مذبوح کے حکم میں ہیں، عطاء نے کہا کہ پرندے (جو پانی پر اترتے ہیں) کا ذبح کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے نہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر جو پانی جمع ہوگیا، اسے کے شکار کے متعلق پوچھا کہ کیا یہ بھی دریائی شکار کے حکم میں ہے، انہوں نے کہا ہاں ! پھر یہ آیت تلاوت کی ھذا عذب فرات سائغ شرابہ وھذا ملح اجاج ومن کل تائکلون لحما طریا، اور حسن رضی اللہ عنہ دریائی کتوں کی کھال سے بنی ہوئی زین پر سوار ہوتے تھے اور شعبی نے کہا کہ اگر میرے گھر کے لوگ مینڈک کھاتے تو میں ان کو کھلادیتا، اور حسن بصری نے کچھوے میں کچھ حرج نہیں سمجھا اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دریا کا شکار کھاؤ، اگرچہ اس کو یہودی، نصری یا مجوسی نے شکار کیا ہو، ابوالدرداء نے مری کے متعلق فرمایا کہ دھوپ اور مچھلیوں نے شراب کو ذبح کردیا (حلال کردیا ہے)

راوی: عبداللہ بن محمد , سفیان , عمرو , جابر

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا يَقُولُ بَعَثَنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مِائَةِ رَاکِبٍ وَأَمِيرُنَا أَبُو عُبَيْدَةَ نَرْصُدُ عِيرًا لِقُرَيْشٍ فَأَصَابَنَا جُوعٌ شَدِيدٌ حَتَّی أَکَلْنَا الْخَبَطَ فَسُمِّيَ جَيْشَ الْخَبَطِ وَأَلْقَی الْبَحْرُ حُوتًا يُقَالُ لَهُ الْعَنْبَرُ فَأَکَلْنَا نِصْفَ شَهْرٍ وَادَّهَنَّا بِوَدَکِهِ حَتَّی صَلَحَتْ أَجْسَامُنَا قَالَ فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ ضِلَعًا مِنْ أَضْلَاعِهِ فَنَصَبَهُ فَمَرَّ الرَّاکِبُ تَحْتَهُ وَکَانَ فِينَا رَجُلٌ فَلَمَّا اشْتَدَّ الْجُوعُ نَحَرَ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ ثَلَاثَ جَزَائِرَ ثُمَّ نَهَاهُ أَبُو عُبَيْدَةَ

عبداللہ بن محمد، سفیان، عمرو، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم تین سو سوار تھے، جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہمارے سردار ابوعبیدہ تھے، ہم قریش کے قافلہ کی گھات میں تھے، ہمیں بہت سخت بھوک لگی، یہاں تک کہ ہم نے خبط (کیکر کے پتے) کھائے، اسی لئے اس لشکر کا نام جیش خبط رکھا گیا اور دریا نے ایک مچھلی جسے عنبر کہا جاتا تھا، کنارے پر لا کر ڈال دی، ہم پندرہ دن تک اس کو کھاتے رہے، اور اس کی چکنائی سے ہم نے اپنے جسم پر روغن مالش کیا، یہاں تک کہ ہمارے جسم تندرست ہوگئے، جابر نے کہا کہ ابوعبیدہ نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لے کر کھڑی کی تو اس کے نیچے سے سوار گذرگیا، ہم میں ایک آدمی تھا، اس کو جب بھی بھوک زیادہ لگتی تو تین تین اونٹ ذبح کردیتا، پھر ابوعبیدہ نے اس کو جمع کردیا۔

Narrated Jabir:
The Prophet sent us as an army unit of three hundred warriors under the command of Abu 'Ubaida to ambush a caravan of the Quraish. But we were struck with such severe hunger that we ate the Khabt (desert bushes), so our army was called the Army of the Khabt. Then the sea threw a huge fish called Al-'Anbar and we ate of it for half a month and rubbed our bodies with its fat till our bodies became healthy. Then Abu Ubaida took one of its ribs and fixed it over the ground and a rider passed underneath it. There was a man amongst us who slaughtered three camels when hunger became severe, and he slaughtered three more, but after that Abu 'Ubaida forbade him to do so.

یہ حدیث شیئر کریں